Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 235
وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِهٖ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَآءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ وَ لٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْهُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا١ؕ۬ وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى یَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْهُ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠ ۧ
وَلَا جُنَاحَ
: اور نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
فِيْمَا
: میں۔ جو
عَرَّضْتُمْ
: اشارہ میں
بِهٖ
: اس سے
مِنْ خِطْبَةِ
: پیغام نکاح
النِّسَآءِ
: عورتوں کو
اَوْ
: یا
اَكْنَنْتُمْ
: تم چھپاؤ
فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ
: اپنے دلوں میں
عَلِمَ اللّٰهُ
: جانتا ہے۔ اللہ
اَنَّكُمْ
: کہ تم
سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ
: جلد ذکر کروگے ان سے
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ
: نہ وعدہ کرو ان سے
سِرًّا
: چھپ کر
اِلَّآاَنْ
: مگر یہ کہ
تَقُوْلُوْا
: تم کہو
قَوْلًا
: بات
مَّعْرُوْفًا
: دستور کے مطابق
وَلَا
: اور نہ
تَعْزِمُوْا
: ارادہ کرو
عُقْدَةَ
: گرہ
النِّكَاحِ
: نکاح
حَتّٰي
: یہانتک
يَبْلُغَ
: پہنچ جائے
الْكِتٰبُ
: عدت
اَجَلَهٗ
: اس کی مدت
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
مَا
: جو
فِىْ
: میں
اَنْفُسِكُمْ
: اپنے دل
فَاحْذَرُوْهُ
: سو ڈرو اس سے
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
حَلِيْمٌ
: تحمل والا
اور اگر تم کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں، خدا کو معلوم ہے کہ تم ان سے (نکاح کا) ذکر کرو گے (مگر ایام عدت میں) اس کے سوا کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہہ دو پوشیدہ طور پر ان سے قول وقرار نہ کرنا اور جب تک عدت پوری نہ ہو لے نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا بخشنے والا اور حلم والا ہے
آیت نمبر :
235
۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولاجناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبۃ النسآء او اکننتم فی انفسکم علم اللہ انکم ستذکرونھن ولکن لاتواعدوھن سرا الا ان تقولوا قولا معروفا “۔ اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا جناح یعنی کوئی گناہ نہیں، ” جناح “ کا معنی گناہ ہے یہی معنی شریعت میں اصح ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شاق گزرنے والا امر ہے لغت کے اعتبار سے یہ معنی اصح ہے۔ شماخ نے کہا ہے : اذا تعدو براکبھا خلیجا تذکر مالدیہ من الجناح “۔ اس میں الجناح سے مراد مشقت آمیز امر ہے : اور قولہ تعالیٰ : (آیت) ” علیکم فیما عرضتم “۔ اس میں خطاب تمام لوگوں کو کیا گیا ہے : اور حکما اس سے مراد وہ آدمی ہے جو اپنے دل میں معتدہ کے ساتھ نکاح کی خواہش رکھتا ہو (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
315
دارالکتب العلمیہ) یعنی عدۃ وفات میں اشارۃ پیغام نکاح دینے میں تم پر کوئی بوجھ اور گناہ نہیں، تعریض تصریح کی ضد ہے۔ اس سے مراد افھام المعنی بالشیء المحتمل لہ ولغیرہ “۔ ہے یعنی کسی معنی کو ایسی شے کے ساتھ سمجھا دینا جو اس معنی اور دوسرے کا احتمال رکھتی ہو اور یہ عرض الشی سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی کسی شے کی جانب اور طرف سے۔ گویا وہ اس طرح مطلوبہ شے کے اردگرد گھومتا رہتا ہے لیکن اس کا اظہار نہیں کرتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ یہ میرے اس قول سے ہے عرضت الرجل یعنی میں نے آدمی کو بطور تحفہ ہدیہ پیش کیا اور حدیث طیبہ میں ہے : ان رکبا من المسلمین عرضوا رسول اللہ ﷺ وابابکر ثیابا بیضا، ای اھدوا لھما “۔ کہ مسلمان شہسواروں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرصدیق ؓ کو سفید کپڑے بطور تحفہ پیش کیے اور کلام کے ساتھ تعریض کرنے والا وہ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ تک بات اس طرح پہنچاتا ہے کہ وہ اس کا معنی ومفہوم سمجھ جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) ابن عطیہ نے کہا ہے : اس پر اجماع امت ہے کہ عدت گزارنے والی عورت کے ساتھ ایسی گفتگو کرنا جو اس کے نکاح کے بارے میں صریح نص ہو اور اس پر متنبہ کرنے والی ہو وہ جائز نہیں ہے اور اسی طرح اس پر بھی امت کا اجماع ہے کہ اس کے ساتھ ایسی کلام کرنا جو فحش ہو اور جماع کا ذکر کرنا یا ایسی گفتگو جو جماع پر ابھارتی ہو یہ بھی جائز نہیں ہے اور اسی طرح جو کلام بھی اس معنی ومفہوم کے مشابہ ہوگا وہ جائز نہیں اور اس کے سوا جو گفتگو ہے اسے جائز قرار دیا گیا ہے اور تصریح کے جو قریب تر کلام ہے وہ حضور نبی رحمت ﷺ کا وہ قول ہے جو آپ نے فاطمہ بنت قیس کے ساتھ کیا : کوفی عند ام شریک ولا تسبقینی بنفسک (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
315
دارالکتب العلمیہ) (تو ام شریک کے پاس رہ اور اپنے بارے میں مجھ سے سبقت نہ لے جا) اور وہ عورت جو طلاق رجعی کی عدت گزار رہی ہو بالاجماع اسے تعریضا پیغام دینا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ زوجہ کی طرح ہے اور رہی وہ عورت جو طلاق بائن کی عدت میں ہو تو صحیح قول یہی ہے کہ اسے تعریضا پیغام نکاح دینا جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ تعریض کی تفسیر میں بہت سے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں، ان کا مجموعہ دو قسموں کی طرف لوٹتا ہے : پہلی قسم یہ ہے کہ وہ اس کا ذکر اس کے ولی سے کرے اور اسے اس طرح کہے ” لا تسبقنی بھا “۔ (تو اس کے بارے مجھ سے (کسی اور کی طرف) آگے نہ بڑھنا) اور دوسری قسم یہ ہے کہ وہ بغیر کسی واسطہ کے اس کی طرف اس اشارہ کرے، اور اسے اس طرح کہے : بلاشبہ میں شادی کا ارادہ رکھتا ہوں یا تو بڑی خوبصورت ہے یا بلاشبہ تو صالحہ اور نیک ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ تجھے خیر و برکت عطا فرمانے والا ہے۔ میں تجھ سے رغبت رکھتا ہوں، کون ہے جو تجھ سے اعراض کرسکتا ہے، بیشک تجھ میں رغبت بہت زیادہ ہے، بلاشبہ مجھے کسی عورت کی حاجت و ضرورت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کوئی امر مقدر فرمائے گا تو وہ ہوجائے گا، یہ تمام امام مالک اور ابن شہاب کی بیان کردہ تمثیلات ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ یہ کہے : ” تو اپنے بارے میں مجھ سے تجاوز نہ کرنا (
2
) (جامع البیان، جلد
2
، صفحہ،
619
داراحیاء التراث العربیۃ) اور کوئی حرج نہیں کہ وہ اسے کوئی ہدیہ اور تحفہ دے اور یہ کہ عدت کے دوران اس کا کام کاج کر دے جبکہ وہ اس کی شان کے مطابق ہو، ابراہیم نے یہی کہا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنی مدح اور تعریف کرے اور وہ اپنے پسندیدہ افعال اور خاندانی شرافت کا ذکر کرے جس میں اشارۃ شادی کا تذکرہ بھی ہو۔ ابو جعفر محمد بن علی بن حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اسی طرح کہا ہے، سکینہ بنت حنظلہ نے بیان کیا ہے کہ محمد بن علی ؓ میرے پاس اجازت لے کر آئے اور میرے خاوند کے فوت ہونے کے وقوت سے ابھی میری عدت نہیں گزری تھی اور انہوں نے کہا : تو جانتی ہے رسول اللہ ﷺ سے میری قرابت ہے اور حضرت علی ؓ سے میری قرابت ہے اور عرب میں میرے مقام و مرتبہ کو بھی تو جانتی ہے، میں نے کہا : اے ابو جعفر ! اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے، بلاشبہ تم ایسے آدمی ہو جس سے مواخذہ کیا جائے گا، تم مجھے میری عدت کے دوران پیغام نکاح دے رہے ہو، تو انہوں نے فرمایا : بلاشبہ میں نے تو تجھے رسول اللہ ﷺ اور حضرت علی سے اپنی قرابت کے بارے بتایا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ ام سلمہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے، وہ ابو سلمہ ؓ سے بیوہ ہوچکی تھیں اور ارشاد فرمایا : ” یقینا تو جانتی ہے میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، اس کا پسندیدہ ہوں اور میری قوم میں میرے مقام سے بھی تو آگاہ ہے۔ “ یہی پیغام نکاح تھا، اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب النکاح :، جلد
3
، صفحہ :
224
، دارالمحاسن قاہرہ) اور معتدہ کے پاس ہدیہ بھیجنا بھی جائز ہے اور یہ بھی تعریض میں سے ہے، سحنون اور بہت سے علماء نے یہی کہا ہے اور ابراہیم نے بھی اسی طرح کہا ہے اور حضرت مجاہد (رح) نے یہ ناپسند کیا ہے کہ کوئی اسے یہ کہے : تو اپنے بارے میں مجھ سے سبقت نہ کرنا اور وہ اسے ہی خفیہ معاہدہ جان لے (
2
) ۔ (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
315
دارالکتب العلمیہ) قاضی ابو محمد بن عطیہ نے کہا ہے : یہ میرے نزدیک حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد کی تاویل کی بنا پر جائز ہے جو آپ نے فاطمہ کو فرمایا تھا کہ یہ اس کے لئے اس آدمی کے بارے میں رائے کے طور پر ہے جو اس سے شادی کرے گا نہ کہ اس طور پر کہ اس سے اس نے اپنی ذات کا ارادہ کیا ہو، کیونکہ یہ حضور ﷺ کے ارشاد کے خلاف ہے (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
315
دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (
3
) قولی تعالیٰ (آیت) ” من خطبۃ النسآء “۔ خاء کے کسرہ کے ساتھ، اس کا معنی ہے کلام اور قصد سے پیغام نکاح دینا اور فعل یا قول سے لطف اندوز ہونا، کہا جاتا ہے : خطبھا یخطبھا خطبا وخطبۃ “۔ (پیغام نکاح دینا) اور رجل الخطاب کثرت سے پیغام نکاح دینے والا آدمی اور اس معنی میں شاعر کا قول بھی ہے۔ بزح بالعینین خطاب الکثب یقول انی خاطب وقد کذب۔ انما یخطب عتا من حلب “۔ (
4
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
315
دارالکتب العلمیہ) اور الخطیب اس کا معنی ہے الخاطب پیغام نکاح دینے والا، اور الخطیبی کا معنی الخطبۃ (منگنی) ہے۔ عدی بن زید نے کہا ہے ‘ وہ جذیمہ الابرش کی طرف سے الزباء کی منگنی کے ارادہ کا ذکر کرتا ہے : لخطیبی التی غدرت وخانت وھن ذوات غائلۃ لحینا۔ اور الخطب سے مراد وہ آدمی ہے جو عورت کو پیغام نکاح دیتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے : ھی خطبہ وخطبتہ التی یخطبھا۔ یہ فلاں کی طرف منسوب ہے اور اس کی منگیتر وہ ہے جسے وہ پیغام بھیجتا ہے اور ” الخطبۃ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے جلسۃ اور قعدۃ۔ اور الخطبۃ خاء کے ضمہ کے ساتھ اس سے مراد وہ کلام ہے جو نکاح وغیرہ میں کہا جاتا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : خطبہ وہ ہے جو اسکے اول اور آخر میں ہو۔ اور اسی طرح وہ جو فعلۃ کے وزن پر ہو جیسے الاکلۃ (خارش) اور الضغطۃ (تنگی، ایک دفعہ کا بھیجنا) ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اواکننتم فی انفسکم “۔ اس کا معنی ہے اس کی عدت گزرنے کے بعد اس سے شادی کرنے کے بارے جو تم پوشیدہ رکھے ہوئے ہو اور چھپائے ہوئے ہو۔ الاکنان کا معنی ہے ڈھانپنا، چھپانا اور مخفی رکھنا۔ کہا جاتا ہے : کننتہ واکننتہ دونوں کا معنی ایک ہے یعنی میں نے اسے چھپائے رکھا۔ اور کہا گیا ہے : کننتہ یعنی میں نے اسے محفوظ رکھا، یہاں تک کہ اسے کوئی آفت نہ آپہنچی، اگرچہ وہ مستور اور چھپا ہوا نہ بھی ہو اور اسی سے بیض مکنون اور درمکنون ہے (یعنی چھپایا ہوا انڈا اور موتی) اور اکننتہ کا معنی ہے میں نے اسے مخفی رکھا اور میں نے اسے ڈھانپ لیا۔ اور کہا جاتا ہے : کننت الشیء (من الاجرا) جب تو اسے چھپا لے کپڑے سے، یا گھر سے یا زمین وغیرہ سے اور اکننت الامر فی نفسی : میں نے کام کو اپنے دل میں چھپائے رکھا، اور عربوں سے یہ جملہ نہیں سنا گیا۔ کننتہ فی نفسی اور کہا جاتا ہے : اکن البیت الانسان گھر نے انسان کو چھپا لیا وغیرہا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس سے گناہ کو اٹھا دیا ہے جس نے اخفا اور تعریض کے ساتھ معتدہ سے شادی کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ایسا وعدہ لینے سے منع فرمایا ہے جو شادی کے بارے صریح ہو اور اس پر اس کی بناء ہو اور وعدے پر اتفاق ہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور جاننے کی رخصت دی ہے، نفوس کے غلبہ اور ان کے مغرور ہونے کے سبب اور انسان کے اس کی ملکیت سے کمزور اور ضعیف ہونے کے سبب۔ مسئلہ نمبر : (
5
) شوافع نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ تعریض میں حدواجب نہیں ہوگی، اور انہوں نے کہا ہے : جب اللہ تعالیٰ نے تعریضا پیغام نکاح دینے میں گناہ کو اٹھا لیا ہے تو یہ اس پر دلیل ہے کہ قذف کے بارے تعریض کرنا حد کو ثابت نہیں کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نکاح میں تعریض کو تصریح کے مقام پر نہیں رکھا۔ ہم نے کہا ہے : یہ (قول) ساقط (الاعتبار) ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پیغام نکاح میں نکاح کے بارے تصریح کی اجازت نہیں دی۔ اور اس نے ایسی تعریض کی اجازت عطا فرما رہی ہے جس سے نکاح کو سمجھا جاس کتا ہو، پس یہ اس پر دلیل ہے کہ تعریض سے قذف سمجھی جائے گی اور عزتوں کی حفاظت کرنا واجب ہوتا ہے اور یہ تعریض کرنے والے پر حد کو ثابت کر دے گا تاکہ فاسق لوگوں کو ایسی تعریض کے ذریعہ عزتوں کو ہاتھ میں لینے کا راستہ نہ مل جائے جس سے وہی سمجھا جاتا ہو جو تصریح سے سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” علم اللہ انکم ستذکرونھن “۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم ضرور ان کا ذکر کرو گے۔ چاہے وہ چھپا ہوا ہو تمہارے دلوں میں یا اعلانیہ ہو تمہارے زبانوں کے ساتھ، سو اللہ تعالیٰ نے تعریض کی رخصت دی ہے تصریح نہیں کی۔ حسن نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تو انہیں پیغام نکاح دو گے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (
7
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولکن لا تواعدوھن سرا “۔ یعنی تم ان سے خفیہ طور پر معاہدہ نہ کرو، اس میں ” سرا “ سے پہلے حرف جر کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ یہ فعل ان میں سے ہے جو دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے اور ان میں سے ایک حرف جر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ” سرا “ کے معنی میں علماء نے اختلاف کیا ہے : بعض نے کہا ہے اس کا معنی نکاح ہے یعنی کوئی آدمی اس معتدہ کو یہ نہ کہے ” تو مجھ سے شادی کرلے “ بلکہ تعریض کرے اگر ارادہ ہو۔ اور اس سے خفیۃ یہ عہد و پیمان نہ لے کہ وہ کسی اور سے شادی نہیں کرے گی، یہ حضرت ابن عباس ؓ ابن جبیر، مالک اور آپ کے اصحاب، شعبی مجاہد، عکرمہ، سدی اور جمہور اہل علم رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے، اس تاویل پر سرا ‘ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے بمعنی مستسرین “۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ السر سے مراد زنا ہے، یعنی تم میں سے کوئی عدت کے دوران زنا اور پھر عدت کے بعد نکاح کا وعدہ نہ لے، اس کا یہ معنی جابر ابن زید، ابو مجلز، لاحق بن حمید، حسن بن ابی الحسن، قتادہ، نخعی، اور ضحاک رحمۃ اللہ علہیم نے بیان کیا ہے کہ اس آیت میں السر بمعنی زنا ہے یعنی تم ان سے زنا کا وعدہ نہ لو (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) اور اسے طبری (رح) نے اختیار کیا ہے اور اس معنی میں اعشی کا قول ہے : فلا تقربن جارۃ ان سرھا علیک حرام فانکحن او تابدا۔ تو کسی پڑوسن کے قریب نہ جا بلاشبہ اس کے ساتھ زنا کرنا تجھ پر حرام ہے پس تو اس سے نکاح کرلے ورنہ تو وحشی ہوجائے گا۔ اور حطیہ نے کہا ہے : ویحرم سر جارتھم علیھم ویاکل جارھم انف القصاع (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) اور ان پر اپنی پڑوسن کے ساتھ زنا کرنا حرام ہے ورنہ ان کا پڑوسی سارے پیالے کو کھاجائے گا۔ اور یہ بھی قول ہے کہ السر کا معنی جماع ہے، یعنی تم انہیں نکاح کی ترغیب دینے کے لئے اپنے آپ کو کثرت جماع سے متصف نہ کرو، کیونکہ بیوی کے سوا کسی اور کے ساتھ جماع کا کرنا فحش ہوتا ہے۔ یہ امام شافعی کا قول ہے اور مراؤالقیس نے کہا ہے : اور رؤبہ نے کہا ہے : فکف عن اسرارھا بعد العسق ‘۔ یعنی اس کے لئے اپنے کو لازم کرلینے کے بعد اس کے جماع سے رک جا اور کبھی السر کا معنی عقد نکاح ہوتا ہے چاہے وہ سرا ہو یا جہرا ہو۔ اعشی نے کہا ہے : فلن یطلبوا سرھا للغنی ولن یسلموھا الازھادھا۔ مراد یہ ہے کہ وہ ہر گز اس کے مال کی کثرت کے پیش نظر اس کے نکاح کا مطالبہ نہ کریں اور نہ وہ اسے مال کم ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں۔ اور ابن زید نے کہا ہے : قول باری تعالیٰ : (آیت) ” ولکن لاتواعدوھن سرا “۔ کا معنی یہ ہے کہ تم ان سے نکاح نہ کرو اور پھر تم اسے چھپاتے پھرو، بلکہ جب وہ حال ہوجائے تو تم اسے ظاہر کرو اور ان سے دخول کرو۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) اور یہی پہلے قول کا معنی ہے۔ پس اس بنا پر ابن زید پہلے قول کے ہی قائل ہیں۔ اور بلاشبہ انہوں نے شاذ قرار دیا ہے کہ عقد کو مواعدۃ کا نام دیا جائے اور یہ پریشانی اور اضطراب ہے (
2
) مکی اور ثعلبی نے ان سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس قول سے منسوخ ہے : (آیت) ” ولا تعزموا عقدۃ النکاح “۔ (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (
8
) قاضی ابو محمد بن عطیہ نے کہا ہے : امت کا اس پر اجماع ہے کہ کسی عورت کے لئے اپنے بارے میں عدت کے دوران نکاح کا وعدہ کرنا اور باپ کے لئے اپنی باکرہ بیٹی کے بارے میں اور آقا کے لئے اپنی لونڈی کے بارے میں وعدہ کرنا مکروہ ہے۔ ابن المواز نے کہا ہے : وہ ولی جو جبر کرنے کا مالک نہیں ہوتا تو میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں اور اگر وہ نکاح کر دے تو میں اسے فسخ نہیں کرتا۔ امام مالک نے اسے آدمی کے بارے میں جو عدت میں وعدہ کرتا ہے اور پھر عدت کے بعد شادی کرتا ہے کہا ہے : میرے نزدیک اس کی تفریق زیادہ پسندیدہ ہے چاہے اس سے دخول کیا جائے یا نہ کہا جائے اور یہ تفریق ایک طلاق ہوگی اور جب وہ حلال ہوجائے تو پھر وہ بھی دیگر لوگوں کے ساتھ اسے پیغام نکاح دے سکے گا، یہ ابن وہب کی روایت ہے (
4
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) اور اشہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ ان کے درمیان وجوبا تفریق کردی جائے گی، ابن القاسم نے یہی کہا ہے اور ابن الحارث نے ابن ماجشون سے اسی طرح بیان کیا ہے اور کچھ زائد کیا ہے جو تقاضا کرتا ہے کہ یہ تحریم ہمیشہ کے لئے ہوگی (
5
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) اور امام شافعی نے کہا ہے : اگر اس نے دعوت نکاح صراحۃ دی اور عورت نے بھی صراحتہ اس کا جواب دیا اور عقد نکاح نہ ہوا یہاں تک کہ عدت گزر گئی تو نکاح گزر گئی تو نکاح ثابت ہوگا اور دونوں کے لئے تصریح مکروہ ہوگی، کیونکہ نکاح منگنی کے بعد واقع ہوا ہے ابن منذر نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الا ان تقولوا قولا معروفا “۔ یہ استثنا منقطع ہے اور الا بمعنی لکن ہے (
6
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) جیسا کہ اس ارشاد میں ہے الا خطا بمعنی لکن خطا، اور قول معروف سے مراد ایسی تعریض ہے جو شرعا مباح ہو اور ضحاک نے ذکر کیا ہے کہ قول معروف میں سے یہ ہے کہ وہ معتدہ کو کہے : تو میرے لئے اپنے آپ کو محبوس کرلے کیونکہ مجھے تیرے ساتھ رغبت ہے اور وہ کہتی ہے : میں بھی اسی طرح ہوں (
7
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
316
دارالکتب العلمیہ) تو یہ ایک دوسرے سے وعدہ کرنے کے مشابہ ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتی یبلغ الکتب اجلہ “۔ اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تعزموا “۔ عزم کے معنی میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے، کہا جاتا ہے : عزم الشیء وعزم علیہ (اس نے شے کا ارادہ کیا اور اس پر پختہ ہوگیا) اور یہاں معنی ہے : ” ولا تعزموا علی عقدۃ النکاح “۔ (اور تم نکاح کی گرہ پر پختہ نہ ہوجاؤ) اور یہ ایک واضح امر ہے کہ قرآن کریم سب سے فصیح کلام ہے، پس جو اس میں وارد ہوا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کی صحت وفصاحت میں کوئی شک کیا جاسکتا ہے، تحقیق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وان عزموا الطلاق “۔ (البقرہ :
227
) (اور اگر وہ طلاق کا پختہ ارادہ کرلیں) اور یہاں فرمایا : (آیت) ” ولا تعزموا عقدۃ النکاح “۔ تو اس کا معنی ہے ” لا تعزموا علی عقدۃ النکاح فی زمان العدۃ “۔ (تم عدت کے دوران نکاح کی گرہ پختہ نہ کرلو) پھر اس سے علی کو حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ سیبویہ نے کہا ہے : ضرب فلان الظھر والبطن “۔ یعنی علی الظھر والبطن “۔ (فلاں کو پیٹھ اور پیٹ پر مارا گیا) سیبوبہ نے کہا ہے : ان اشیاء میں حذف پر کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ نحاس نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ ” ولا تعقدوا عقدۃ النکاح ہو کیونکہ تعزموا اور تعقدوا کا معنی ایک ہے (اور تم نکاح کی گرہ کو پختہ نہ باندھ لو) اور کہا جاتا ہے : تعزموا یعنی را کے ضمہ کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر : (
2
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” حتی یبلغ الکتب اجلہ “۔ اس سے مراد عدت کا مکمل ہونا ہے اور الکتاب سے یہاں مراد وہ حد ہے جو مقرر کی گئی اور مدت میں سے وہ مقدار ہے جسے بیان کردیا گیا، لکھ دیا گیا اور اس کا نام کتاب رکھا ہے کیونکہ کتاب اللہ نے اس حد کو بیان کیا ہے اور اسے مقرر کیا ہے، جیسا کہ فرمایا : کتاب اللہ علیکم “۔ اور اسی طرح فرمایا : (آیت) ” ان الصلوۃ کا نت علی المؤمنین کتبا موقوتا “۔ (النسائ) ترجمہ : بیشک نماز مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے اپنے اپنے مقررہ وقت پر) پس الکتاب کا معنی الفرض (مقرر کرنا) ہے، یعنی یہاں تک کہ مقرر کی ہوئی مدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے۔ (حتی یبلغ الفرض اجلہ) (آیت) ” کتب علیکم الصیام “۔ ترجمہ : یعنی تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام میں حذف ہے۔ تقدیر کلام ہے حتی یبلغ فرض الکتاب اجلہ “ یعنی کتاب کی مقرر کی ہوئی مدت اپنی انتہاء کو پہنچ جائے، اس تاویل کی بنا پر الکتاب سے مراد قرآن کریم ہے اور پہلی تاویل پر اس میں کوئی حذف نہیں ہے، سو وہی اولی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران عقد نکاح کو حرام قرار دیا ہے اپنے اس ارشاد کے ساتھ (آیت) ” ولاتعزموا عقدۃ النکاح حتی یبلغ الکتب اجلہ “۔ یہ محکم ہے، اس کی تاویل پر اجماع ہے کہ بلوغ اجلہ سے مراد انقضاء العذۃ (عدت کا گزرنا) ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ عدت میں تعریض کو مباح قرار دیا ہے : (آیت) ” ولا جناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبۃ النسآء “۔ الآیہ۔ اور علماء نے اس کی اباحت میں کوئی اختلاف نہیں کیا ہے، البتہ انہوں نے تعریض کے الفاظ میں اختلاف کیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور انہوں نے اس آدمی کے بارے میں بھی اختلاف کیا ہے جو کسی عورت کو اس کی عدت میں پیغام نکاح دیتا ہے درآنحالیکہ وہ جاہل ہو یا وہ اس سے وعدہ لیتا ہے اور عدت کے بعد عقد نکاح کرتا ہے اور اس سے پہلی آیت میں یہ مسئلہ گزر چکا ہے۔ اور انہوں نے اختلاف کیا ہے کہ اگر کسی نے عدت میں نکاح کی گرہ پختہ کرلیا اور اس پر اطلاع پالی گئی اور حاکم نے اس کا نکاح فسخ کردیا اور وہ دخول سے پہلے ہوا تو وہ یہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) حضرت عمر بن خطاب ؓ اور علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ اسے ہمیشہ کے لئے حرام قرار نہیں دیا جائے گا بلکہ وہ بھی نکاح میں دلچپسی رکھنے والے لوگوں کے ساتھ نکاح کا ایک خواہشمند ہو سکتا ہے (اور پیغام نکاح بھیج سکتا ہے) امام مالک (رح) نے یہی کہا ہے اور ابن القاسم (رح) نے المدونہ میں اس باب کے آخر میں بیان کیا ہے جس کے پیچھے ضرب اجل المفقود ہے۔ اور ابن جلاب نے امام مالک (رح) سے ایک روایت بیان کی ہے کہ عقد میں تحریم ہمیشہ کے لئے ہوگی اگرچہ نکاح کا فسخ دخول سے پہلے ہو (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
317
دارالکتب العلمیہ) اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے نکاح عدت میں کیا ہے پس یہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ تحریم دائمی ہو۔ اس کی اصل یہ ہے کہ جب وہ اس کے پاس جائے، اور اگر عقد عدت میں ہوا اور وہ اس کے پاس داخل ہو اس کی عدت گزرنے کے بعد تو پھر مسئلہ یہ ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
317
دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (
5
) پس اہل علم میں سے ایک قوم نے کہا ہے : یہ عدت میں دخول کی طرح ہے۔ لہذا دونوں کے درمیان تحریم ہمیشہ کے لئے ہوگی اور اہل علم میں سے ایک گروہ نے کہا ہے اس سے تحریم ہمیشہ کیلئے نہیں ہوگی۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : تحریم دائمی ہوگی اور ایک بار کہا : اس سے تحریم ثابت نہیں ہوتی، یہ بالکل واضح ہے، آپ کے دونوں قول المدونہ میں طلاق سنت کے بیان میں ہیں اور اگر اس نے عدت میں دخول کیا تو پھر مسئلہ یہ ہے (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
317
دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (
6
) امام امالک (رح)، لیث اور اوزاعی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : انکے درمیان تفریق کردی جائے گی اور وہ عورت اس کے لئے کبھی حلال نہ ہوگی۔ امام مالک اور لیث نے کہا ہے : ملک یمین کے ساتھ بھی نہیں۔ اسکے باوجود کہ انہوں نے مزنی کی اس کے ساتھ شادی کو جائز قرار دیا۔ اور انہوں نے اس سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا : وہ دونوں کبھی جمع نہ ہو سکیں گے۔ حضرت سعید نے کہا ہے : اس کے لئے اس کا وہ مہر ہوگا جس کے عوض اس کی فرج حلال سمجھی گئی۔ (
4
) (مؤطا امام مالک، صفحہ
504
، وزارت تعلیم) اسے امام مالک (رح) نے مؤطا میں بیان کیا ہے۔ اور ثوری، علمائے کوفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علہیم نے بیان کیا ہے : ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور تحریم دائمی نہ ہوگی بلکہ ان کے درمیان فسخ نکاح کیا جائے گا پھر وہ اس کی عدت گزارے گی پھر وہ دعوت نکاح دینے والوں میں سے ایک دعوت نکاح دینے والا ہوجائے گا اور انہوں نے اس پر علماء کے اجماع سے استدلال کیا ہے کہ اگر وہ اس کے ساتھ زنا کرے تو اس پر اس سے شادی کرنا حرام نہیں ہوتا، تو اس طرح دوران عدت اس کا اس سے وطی کرنا بھی ہے۔ انہوں نے کہا : یہی حضرت علی ؓ کا قول ہے، اسے عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے اور حضرت ابن مسعود ؓ اور حسن ؓ سے بھی اسی کی مثل ذکر کیا گیا ہے۔ اور عبد الرزاق (رح) نے ثوری عن اشعث عن الشعبی عن مسروق کی سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس سے رجوع کرلیا اور فرمایا : وہ دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں جمع ہو سکتے ہیں۔ قاضی ابو الولید الباجی نے المنتقی میں بیان کیا ہے : عدت میں نکاح کرنے والا اس سے خالی نہ ہوگا کہ جب وہ اس کے پاس گیا تو یا وہ اس کے پاس عدت میں جائے گا یا عدت کے بعد، پس اگر وہ عدت میں اس کے پا گیا ہے تو پھر مشہور مذہب یہ ہے کہ تحریم دائمی ہوگی، یہی امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا ہے اور شیخ ابو القاسم (رح) نے تفریع میں بیان کیا ہے کہ جب آدمی عدت میں عورت سے شادی کرتا ہے، چاہے وہ عدت طلاق ہو یا عدت وفات ہو، یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرنا حرام ہے تو اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی تحریم دائمی ہوگی (کبھی بھی وہ عورت اس پر حلال نہ ہو سکے گی) جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ اور دوسری یہ ہے کہ وہ زنا کرنے والا ہے اور اس پر حد لازم ہے اور بچہ اس کے ساتھ لاحق نہیں کیا جائے گا اور اس کے لئے جائز ہے کہ جب اس کی عدت گزر جائے تو وہ اس کے ساتھ شادی کرلے۔ یہی امام شافعی (رح) (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
317
،
318
، دارالکتب العلمیہ) نے کہا ہے۔ پہلی روایت کی وجہ یہ ہے اور وہی مشہور ہے کہ وہ حضرت عمر ؓ کے اس فیصلہ کرنے اور لوگوں میں اس کے نافذ ہونے سے ثابت ہے اور آپ کے فیصلے مختلف شہروں میں منتقل ہوتے تھے اور پھیل جاتے اور آپ سے اختلاف کرنے والا کوئی معلوم نہیں پس اس سے ثابت ہوا کہ اسی پر اجماع ہے قاضی ابو محمد نے بیان کیا ہے کہ اس کی مثل حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے بھی مروی ہے اور اس کے مشہور ہونے اور عام منتشر ہونے کے باوجود دونوں کے ساتھ اختلاف کرنے والا کوئی نہیں یہی اجماع کا حکم ہے۔ اور دوسری روایت کی وجہ یہ کہ یہ ممنوع وطی ہے اور اس کی تحریم دائمی نہیں۔ جیسا کہ اگر وہ اپنی شادی خود کرے یا نکاح متعہ کرے یازنا کرے (تو ان سے دائمی تحریم ثابت نہیں ہوتی) اور قاضی ابو الحسن نے کہا ہے : اس بارے میں امام مالک (رح) کا مشہور مذہب نظر وفکر کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ واللہ اعلم۔ اور ابو عمر نے سند بیان کی ہے : حدثنا عبد الوارث بن سفیان حدثنا قاسم بن اصبغ عن محمد ابن اسماعیل عن نعیم بن حماد عن ابن المبارک عن اشعث عن الشعبی عن مسروق، کہ انہوں نے کہا : حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس خبر پہنچی کہ قریش کی ایک عورت سے ثقیف کے ایک آدمی نے اس کی عدت میں شادی کی تو آپ نے ان دونوں کو بلا بھیجا اور ان کے درمیان تفریق کردی اور ان دونوں کو سزا دی اور فرمایا : تو کبھی اس سے نکاح نہیں کرسکتا اور آپ نے اس کا مہر بیت المال سے دے دیا، یہ بات لوگوں میں لوگوں میں پھیل گئی اور حضرت علی ؓ تک بھی پہنچی، تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ امیر المومنین پر رحم فرمائے، مہر اور بیت المال کا کیا تعلق ہے۔ وہ دونوں جاہل تھے، پس امام کو چاہئے کہ وہ ان دونوں کو سنت کی طرف لوٹا دے، عرض کی گئی : آپ ان دونوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : اس کے لئے مہر وہ ہے جس کے عوض اس کی فرض کو حلال سمجھا گیا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور ان پر بطور حد کوڑوں کی سزا نہ ہوگی، اور وہ پہلے خاوند کی جانب سے اپنی عدت کو مکمل کرے گی، پھر دوسرے خاوند کی جانب سے کامل تین حیض عدت مکمل کرے گی، پھر اگر وہ چاہے تو اسے دعوت نکاح دے سکتا ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
318
دارالکتب العلمیہ) پس یہ خبر حضرت عمر ؓ کے پہنچی تو آپ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا : اے لوگو ! جہالتوں کو سنت کی طرف لوٹا، ال کیا الطبری نے کہا ہے : فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ آدمی جس نے کسی عورت کے ساتھ عقد نکاح کیا درآنحالیکہ وہ عورت کی اور مرد کی عدت میں ہو تو وہ نکاح فاسد ہے اور حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ دونوں کا ان سے حد کی نفی پر اتفاق اس پر دلالت کرتا ہے کہ نکاح فاسد حد کو ثابت نہیں کرتا مگر اس کی جہالت کے باوجود تحریم متفق علیہ ہے اور اس کا علم ہونے کے ساتھ اس میں اختلاف کیا گیا ہے اور علماء نے اختلاف کیا ہے کیا وہ دونوں کی جانب سے اکٹھی عدت گزارے گی ؟ یہ دو عدتوں کا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے : مسئلہ نمبر : (
7
) اہل مدینہ نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ پہلے کی جانب سے بقیہ عدت مکمل کرے گی اور دوسرے کی جانب سے دوسری عدت نئے سرے سے گزارے گی، یہی لیث، حسن بن حی، شافعی، احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے۔ اور حضرت علی ؓ سے روایت کیا گیا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور حضرت عمر ؓ سے مروی ہے جیسا کہ آگے آئے گا، محمد بن قاسم اور ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ دوسرے خاوند کی جانب سے اس کی عدت اس کے لئے اس دن سے کافی ہوگی جس دن مرد اور عورت کے درمیان تفریق کردی گئی، چاہے وہ حمل کے ساتھ ہو یا حیضوں کے ساتھ ہو یا مہینوں کے ساتھ، یہی قول ثوری، اوزاعی اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علہیم کا ہے اور ان کی دلیل اس پر اجماع ہے کہ پہلا خاوند اپنی بقیہ عدت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتا تو یہ اس پر دلیل ہے کہ وہ دوسرے کی عدت میں ہے۔ اگر اس طرح نہ ہوتا تو وہ یقینا اس کی بقیہ عدت میں اس سے نکاح کرسکتا۔ پہلے گروہ نے جواب دیا اور کہا : یہ لازم نہیں ہے کیونکہ پہلے خاوند کو اس کی بقیہ عدت میں اس سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس پر دوسرے کی عدت واجب ہے، یہ دونوں حق ہیں جو دو خاوندوں کی جانب سے اس پر واجب ہیں جیسا کہ آدمیوں کے تمام حقوق واجب ہوتے ہیں اور ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے حق میں داخل نہیں ہو سکتا۔ امام مالک (رح) نے ابن شہاب عن سعید بن مسیب اور عن سلیمان بن یسار کی سند سے بیان کیا ہے کہ طلیحہ اسدیہ رشید ثقفی کے نکاح میں تھی تو اس نے اسے طلاق دے دی اور اس سے اپنی عدت میں نکاح کرلیا تو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اسے اور اس کے خاوند کو خفیف سی ضربیں لگائیں اور ان کے درمیان تفریق کردی، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا : جس عورت نے بھی اپنی عدت کے دوران نکاح کیا پس اگر اس کا خاوند ایسا ہے جس نے اس کے ساتھ شادی کی ہے اس نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے، پھر وہ عورت پہلے خاوند کی جانب سے اپنی بقیہ عدت گزارے پھر دوسرے پیغام نکاح دینے والوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس نے دخول کرلیا ہے تو ان کے درمیان تفریق کردی جائے پھر وہ پہلے کی جانب سے اپنی بقیہ عدت گزارے پھر دو سے کی جانب سے عدت گزارے پھر وہ کبھی جمع نہ ہو سکیں گے۔ امام مالک (رح) نے کہا : حضرت سعید بن مسیب (رح) نے فرمایا : اس کے لئے اس کا وہ مہر ہے جس کے عوض اس کی فرج حلال سمجھی گئی۔ (
1
) (مؤطا امام مالک، کتاب النکاح جلد
1
صفحہ
503
۔
504
، وزارت تعلیم) ابو عمر نے کہا ہے : یہ طلیحہ طلیحہ بنت عبیداللہ ہے، طلحہ بن عبید اللہ التیمی کی بہن ہے اور مؤطا کے بعض نسخوں میں یحییٰ کی روایت سے یہ ہے : طلیحہ الاسدیہ اور یہ خطا اور لاعلمی ہے۔ میں کسی کو نہیں جانتا کہ اس نے یہ کہا ہو۔ مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ : فضربھا عمر بالمخفقۃ وضرب زوجھا ضربات (
2
) (مؤطا امام مالک، کتاب النکاح جلد
1
صفحہ
503
، وزارت تعلیم) اس سے مراد ہے کہ آپ نے بطور سزا انہیں یہ ضربیں لگائیں جب کہ ان دونوں نے ایک ممنوع عمل کا ارتکاب کیا اور وہ ہے عدت میں نکاح کرنا۔ اور زہری نے کہا ہے : میں نہیں جانتا کہ وہ کوڑے کتنی مقدار تک پہنچے، فرمایا : اس مسئلہ میں عبدالمالک کے کوڑے دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چالیس کوڑے تھے، فرمایا : اس بارے میں قبیصہ بن ذؤیب سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : اگر تم تخفیف بھی کرو تو بیس کوڑے لگاؤ، اور ابن حبیب نے ایسی عورت کے بارے میں کہا جو عدت میں شادی کرتی ہے اور مرد اسے مس کرتا ہے یا بوس وکنار کرتا ہے یا مباشرت کرتا ہے یا ہاتھ سے ٹٹولتا ہے یا شہوت کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا ہے تو زوجین پر سزا ہوگی، ولی پر، گواہوں پر اور ان میں سے ہر اس پر جو یہ جانتا ہو کہ یہ عدت میں ہے اور ان میں سے جو نہ جانتا ہو اس پر سزا نہ ہوگی، اور ابن المواز نے کہا ہے : زوجین کو بطور حد کوڑے لگائے جائیں گے اگر دونوں نے عمدا کیا ہو، اور ابن حبیب کے قول کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ یہ اس کے بارے ہے جسے عدت کے بارے علم ہو۔ اور شاید وہ جو تحریم سے ناواقف ہو اور اس نے فعل ممنوع کا ارتکاب جان بوجھ کر نہ کیا ہو تو وہ وہ ہے جسے سزا دی جائے گی اور اسی بناء پر حضرت عمر ؓ نے اس عورت اور اس کے خاوند کو ہلکی سی شے کے ساتھ ضربیں لگائیں اور اس بارے میں سزا اور تادیب اس کے حال کے مطابق ہوگی جسے سزا دی جارہی ہے۔ اور ابن المواز کے قول کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ ان دونوں کو تحریم کا علم ہو اور انہوں نے جرات اور دلیری کرتے ہوئے ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہو، اور شیخ ابو القاسم نے کہا ہے : بلاشبہ یہ دونوں روایتیں عمدا کرنے کے بارے میں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حد جاری کی جائے گی اور دوسری کے مطابق سزا دی جائے گی اور حد جاری نہیں کی جائے گی۔ مسئلہ نمبر : (
9
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واعلموا ان اللہ یعلم مافی انفسکم فاحذروہ “۔ یہ تحذیر اور ڈرانے کی انتہا ہے ایسے امر کے وقوع کے بارے جس سے منع کیا گیا ہے۔
Top