Al-Qurtubi - Al-Baqara : 194
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ : حرمت والا مہینہ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ : بدلہ حرمت والا مہینہ وَ : اور الْحُرُمٰتُ : حرمتیں قِصَاصٌ : قصاص فَمَنِ : پس جس اعْتَدٰى : زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر فَاعْتَدُوْا : تو تم زیادتی کرو عَلَيْهِ : اس پر بِمِثْلِ : جیسی مَا : جو اعْتَدٰى : اس نے زیادتی کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ المتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں
ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں، پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے
آیت نمبر 194 اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الشھر الحرام اس سے پہلے الشھر کا اشتقاق گزرچکا ہے اس کے نزول کا سبب وہ ہے جو حضرات ابن عباس، قتادہ مجاہد، مقسم، سدی، ربیع اور ضحاک وغیرہ سے روایت کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا : یہ عمرۃ القضاء اور حدیبیہ کے سال نازل ہوئی۔ واقعہ اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کے لئے نکلے حتیٰ کہ ذی القعدہ 6 ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو کفار قریش نے بیت اللہ کی طرف سے روک دیا۔ آپ واپس آگئے اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ مکہ میں ضرور داخل ہوں گے۔ پس آپ سات ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے اور اپنے عمرہ کی قضا کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حسن سے مروی ہے کہ مشرکین نے نبی کریم ﷺ سے کہا : کیا تجھے شہر حرام میں قتال سے منع کیا گیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ پس مشرکین نے حرمت والے مہینے میں جنگ کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ معنی یہ ہے کہ اگر وہ اس مہینہ میں قتال کو حلال کریں تو آپ ان سے قتال کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ان کی موافقت کو مباح کیا۔ پہلا قول مشہور ہے اور اکثر علماء کی رائے اسی پر ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والحرمٰت قصاص، الحرمات جمع ہے حرمة کی جیسے الظلمة کی جمع الظلمات ہے۔ حجرۃ کی جمع حجرات ہے حرمات جمع ذکر فرمایا کیونکہ شہر حرام کی حرمت، بلد حرام کی حرمت، احرام کی حرمت مرادلی ہے۔ الحرمة کا مطلب جس کے توڑنے سے منع کیا گیا ہو۔ القصاص کا معنی المساوات ہے یعنی میں نے تمہارے لئے ان سے برابری کردی ہے۔ انہوں نے تمہیں چھ ہجری میں روکا تو تم نے سات ہجری میں عمرہ قضا کیا۔ والحرمٰت قصاص۔ ما قبل سے متصل ہے اور اس کے متعلق ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ پہلی کلام سے جدا ہے۔ یہ ابتداء اسلام میں تھا جو تیری حرمت کو تار تار کرتا تو اس سے اتنا بدلہ لے سکتا تھا جتنی اس نے تجھ پر زیادتی کی ہوتی تھی پھر یہ قتال کے ساتھ منسوخ ہوگیا۔ ایک طائفہ نے کہا : حضرت محمد ﷺ کی امت کے درمیان تعدی اور جنایات میں سے جو اس آیت میں شامل ہیں وہ منسوخ نہیں ہیں جس کے مال میں یا زخم کے اعتبار سے ظلم کیا گیا ہو اس کے لئے اتنی تعدی (زیادتی) کرنا جائز ہے جو اس پر کی گئی ہے جب کہ اس کے لئے زیادتی ظاہر ہوجائے۔ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اپنی زیادتی کا بدلہ لینے میں کچھ نہیں ہوگا (یعنی اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا) یہ امام شافعی وغیرہ کا قول ہے یہ امام مالک کے مذہب کی روایت ہے۔ امام مالک کے اصحاب میں سے ایک طائفہ نے کہا ؛ یہ اس کے لئے جائز نہیں۔ قصاص (بدلہ) کا امر حکام پر موقوف ہے اور اموال کو رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد شامل ہے۔ امانت اسے ادا کرو جس نے تمہیں امین بنایا اور جس نے تم سے خیانت کی تم اس سے خیانت کی تم اس سے خیانت نہ کرو۔ اس حدیث کو دار قطنی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ پس جس کو خیانت کرنے والے نے امین بنایا ہوا سے اس کے ساتھ خیانت کرنا جائز نہیں اور جس نے اسے امین بنایا ہے اس کا حق اسے پہنچائے۔ یہ مشہور مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے انہوں نے اسی حدیث کو دلیل بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے حجت پکڑی ہے : ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الا مٰنٰت الیٰٓ اھلھا (النساء : 58) (بےشک اللہ حکم فرماتا ہے تمہیں کہ (ان کے) سپرد کرو امانتوں کو جوان کے اہل نہیں ) ۔ یہ عطا خراسانی کا قول ہے۔ قدامۃ بن الہیشم نے کہا : میں نے عطا بن میسرہ خراسانی سے سوال کیا، میں نے ان سے پوچھا : میرا ایک شخص پر حق ہے، جس کا اس نے مجھ پر انکار کیا ہے اور میرے لئے دلیل پیش کرنا بھی ممکن نہیں۔ کیا میں اس کے مال سے اپنے مال کے حق ہے، جس کا اس نے مجھ پر انکار کیا ہے اور میرے لئے دلیل پیش کرنا بھی ممکن نہیں۔ کیا میں اس کے مال سے اپنے مال کے برابر لے لوں ؟ عطا نے کہا : تم بتاؤ اگر وہ تیری لونڈی سے جماع کرتا تو تو جانتا ہے جو تو کرتا۔ میں کہتا ہوں : صحیح اس کا جواز ہے جیسے ہی اپنے حق کو حاصل کرے جبکہ تو چور شمار نہ ہو۔ یہ امام شافعی کا مذہب ہے اس کو داؤدی نے امام مالک سے حکایت کیا ہے۔ ابن منذر نے بھی یہی کہا ہے۔ ابن عربی نے اس کو اختیار کیا ہے یہ خیانت نہیں ہے یہ تو اپنے حق کو پانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔ طالم سے حق لینا یہ اسکی مدد کرنا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہندبنت عتبہ، ابو سفیان کی بیوی کو کہا : جب اس نے کہا تھا۔ ابوسفیان کنجوس آدمی ہے مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے لئے کافی ہو اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو مگر یہ کہ اس کے مال سے اس کے علم کے بغیر لے لوں، کیا مجھ پر مال لینے میں کوئی حرج ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو معروف طریقہ سے اتنا لے لے جو تجھے کافی ہو اور تیری اولاد کو کافی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے لینا مباح قرار دیا مگر وہ اتنی مقدار ہے جو اس کے لئے ضروری ہو۔ یہ تمام صحیح حدیث میں ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن اعتدٰی علیکم فاعتدوا علیه بمثل ما اعتدٰی علیکم (جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرلو لیکن اس قدر جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ) ۔ یہ اختلاف کی صورت میں قطعی حکم ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اس میں اختلاف ہے کہ جو اپنے مال کی جنس کے علاوہ مال حاصل کرنے پر کامیاب ہوجائے۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ نہ لے مگر حاکم کے حکم سے۔ امام شافعی کے اس سلسلہ میں دو قول ہیں : اصح لے لینا ہے انہوں نے اسے اس پر قیاس کیا ہے اگر وہ اپنے مال کی جنس سے حاصل کرنے پر قادر ہو۔ دوسرا قول ہے کہ وہ نہ لے کیونکہ وہ اسکے مال کی جنس کے خلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جو اسکے خصم پر ہے اسکی قمیت کا قصد کرے اور اسکی مقدار لے لے یہ صحیح ہے جیسا کہ ہم نے دلیل سے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 4: ہم اس لینے پر فرعی مسائل نکالتے ہیں۔ کیا اس پر خود قرض ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا ؟ امام شافعی نے فرمایا : نہیں، بلکہ جو اس کا اس پر ہے وہ لے۔ امام مالک نے فرمایا : اگر مقروض کو مفلس قرار دیا گیا ہو تو اس کے لئے دوسرے غرباء کے ساتھ جو حاصل ہوگا اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ یہی قئ اس ہے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن اعتدٰی علیکم فاعتدوا علیه بمثل ما اعتدٰی علیکم یہ عموم متفق علیہ ہے، خود لینا ممکن ہو تو لے لے یا حکام کے ذریعے لے لے۔ لوگوں کا بدلہ لینے میں اختلاف ہے۔ کیا بدلہ کو لینے میں اختلاف ہے۔ کیا بدلہ کو عدوان کہا جائے گا یا نہیں جس نے کہا : قرآن میں مجاز نہیں ہے۔ مقابلہ عدوان ہے اور وہ مباح عدوان ہے جیسا کہ کلام عرب میں مجاز کذب ہے۔ کیونکہ کہنے والے کا قول ہے : فقالت له العینان سمعاً وطاعة۔۔۔ اس کی آنکھوں نے اسے کہا ہم سنیں گی اور اطاعت کریں گی۔ اسی طرح قول ہے : امتلا الحوض وقال قطنی۔ حوض بھر گیا اور اس نے کہا مجھے کافی ہے۔ اسی طرح جملہ ہے : شکا الیٰ حملی طول السری۔ میرے اونٹ نے مجھ سے طویل چلنے کی شکایت کی۔ یہ معلوم شدہ ہے کہ یہ اشیاء بولتی نہیں ہیں اور جھوٹ کی تعریف یہ ہے کہ چیز کے متعلق اس کی حقیقت کے خلاف خبر دینا۔ اور جنہوں نے کہا : قرآن میں مجاز ہے، انہوں نے اسے مجاز کے طریق پر عدوان کا نام دیا۔ کلام کا مقابلہ اس کی مثل ہے۔ جیسے عمرو بن کلثوم نے کہا : الا لا یجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاھلینا خبردار ! ہم پر کوئی جہالت کا مظاہرہ نہ کرے ورنہ ہم اس کی جہالت سے زیادہ جہالت کا مظاہرہ کریں گے۔ اسی طرح ایک اور نے کہا : ولی فرس للحلم بالحکم ملجم ولی فرس للجھل بالجھل مسرج میرے لئے ایک گھوڑا حلم کے لئے ہے جسے حلم کی لگام دی گئی ہے اور ایک جہالت کا گھوڑا ہے جسے جہالت کی زین پہنائی گئی ہے۔ و من رام تقویمی فانی مقوم و من رام تعویجی فانی معؤج جس نے میری تقویم کا ارادہ کیا تو میں مقوم (سیدھا کیا گیا) ہوں اور جس نے میرے ٹیڑھے پن کا ارادہ کیا تو میں ٹیڑھا ہوں۔ اس کی مراد ہے : میں جاہل اور ٹیڑھے شخص کو بدلہ دیتا ہوں۔ وہ اپنی جہالت اور ٹیڑھے پن سے مدح نہیں کررہا ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اس شخص کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جس نے کوئی حیوان یا سامان ضائع کردیا جس کا نہ کیل کیا جاتا ہے نہ وزن کیا جاتا ہے۔ امام شافعی۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور علماء کی ایک جماعت نے کہا : اس پر اس کی مثل ہے قیمت کی طرف نہیں پھیرا جائے گا پھر مگر مثل کے نہ پائے جانے کے وقت۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن اعتدٰی علیکم فاعبدوا علیه بمثل ما اعتدٰی علیکم اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان عاقبتم فعاقبوابمثل ما عوقبتم بہٖ (النحل : 126) (اگر تم انہیں سزا دینا چاہو تو انہیں سزا دو لیکن اس قدر جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے۔ ) علماء فرماتے ہیں : یہ تمام اشیاء میں عام ہے اور انہوں نے اس سے تائید حاصل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی زوجہ کے گھر ٹوٹا ہوا پیالہ رکھ لیا تھا جس نے دوسری زوجہ محترمہ کا پیالہ توڑا تھا اور صحیح پیالہ واپس کیا تھا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : برتن کے بدلے برتن اور کھانے کے بدلے لھانا ہے۔ اس حدیث کو ابودؤد نے ثقل کیا ہے۔ فرمایا : ہمیں مسدد نے بتایا انہوں نے فرمایا : ہمیں یحییٰ ٰ نے بتایا دوسری سند میں سے ہمیں محمد بن مثنی نے بتایا : انہوں نے کہا : ہمیں خالد نے بتایا انہوں نے حمید سے انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس تھے۔ تو دوسری امہات المومنین میں سے کسی نے اپنے خادم کے ساتھ ایک پیالہ بھیجا جس میں کوئی کھانا تھا۔ فرمایا : جس کے پاس رسول اللہ ﷺ موجود تھے اس نے ہاتھ مارا اور پیالہ توڑ دیا۔ حضرت ابن مثنی نے کہا : نبی کریم ﷺ نے دونوں ٹکڑے لئے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ ملادیا اور اس میں کھانے کو جمع کرنا شروع کردیا اور فرمایا : تمہاری ماں نے غیرت کی ہے۔ حضرت ابن مثنی نے یہ زائد بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ۔ پس حاضرین مجلس نے وہ کھانا کھایا حتیٰ کہ جس نے وہ پیالہ توڑا تھا وہ اپنا وہ پیالہ لے آئی جو اس کے گھر میں موجود تھا۔ پھر ہم مسدو کی حدیث کے الفاظ کی طرٹ لوٹتے ہیں۔ فرمایا : کھاؤ اور آپ ﷺ نے اس خادم اور پیالے کو روک لیا حتی کہ لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے۔ آپ ﷺ نے صحیح پیالہ خادم کو دیا اور ٹوٹا ہوا پیالہ اپنے گھر میں روک لیا۔ ہمیں ابو داؤد نے بتایا، فرمایا : ہمیں مسدد نے بتایا، فرمایا : ہمیں یحییٰ نے بتایا انہوں نے سفیان سے روایت کیا فرمایا :” ہمیں فلیت عامری نے بتایا، ابو داؤد نے کہا : یہ افلت بن خلیفہ ہے انہوں نے جسرہ بنت دجاجہ سے روایت کیا، فرمایا : حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : میں نے کوئی ایسا کھانا تیار کرنے والا نہیں دیکھا جو حضرت صفیہ کی طرح کھانا تیار کرتا ہو۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لئے کھانا تیار کیا پھر آپ کی خدمت میں بھیجا۔ شدت غیرت کی وجہ سے مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی میں نے برتن توڑ دیا۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! اسکا کیا کفارہ ہے جو میں نے کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا برتن کی مثل برتن، کھانے کی مثل کھانا۔ امام مالک اور ان کے اصحاب نے فرمایا : جس شخص پر حیوان یا سامان ہو جن کا نہ کیل کیا جاتا ہو نہ وزن کیا جاتا ہو اس کی قیمت ہوگی، مثل نہیں ہوگی۔۔۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو غلام کے نصف کی قیمت اپنے شریک کو دینے کو کہا جس نے غلام کا نصف آزاد کردیا۔ آپ نے اس غلام کے نصف کی مثل کی ضمانت کا حکم نہ دیا۔ اور علماء کے درمیان کھانے، پینے والی چیزوں اور وزنی چیزوں میں مثل کی ضمانت دینے پر کوئی اختلاف نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : طعام کے بدلے طعام ہے۔ مسئلہ نمبر 7: علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت قصاص میں برابری میں اصل ہے جس نے کسی کو جس چیز سے قتل کیا ہوگا اسے اس چیز کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔ یہ جمہور کا قول ہے جب تک کہ اس نے کسی برائی سے قتل نہ کیا ہو۔ جیسے لواطت سے قتل کیا ہو یا شراب پلا کر قتل کیا ہو تو اسے تلوار کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔ شوافع کے دو قول ہیں : اسے اس کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔ اس صفت پر ایک لکٹری بنائی جائے گی اور وہ اس کی دبر میں ماری جائے گی حتیٰ کہ وہ بھی مرجائے اور اسے شراب کی جگہ پانی پلایا جائے گا حتیٰ کہ وہ مرجائے۔ ابن ماجشون نے کہا : جس نے اگ یا زہر سے قتل کیا تو اس کے ساتھ قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے سوا آگ کے ساتھ کوئی عذاب نہ دے۔ اور زہر پوشیدہ آگ ہے۔ جمہور علماء کا خیال ہے : وہ اس کے ساتھ قتل کیا جائے گا کیونکہ آیت میں عموم ہے۔ مسئلہ نمبر 8: لاٹھی کے ساتھ قصاص لینا : امام مالک کی ایک روایت میں ہے کہ اگر لاٹھی سے قتل کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہو اور عذاب ہوتا ہو تو تلوار کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔ یہ ابن وہب نے مالک سے روایت کیا ہے اور ابن قاسم کا بھی یہی قول ہے۔ اور امام مالک سے دوسری روایت یہ ہے کہ اسے لاٹھی کے ساتھ قتل کیا جائے گا اگرچہ اس میں تطویل وتعذیب بھی ہو۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ اشہب اور ابن نافع نے مالک سے پتھر اور لاٹھی سے قتل کرنے والے کے متعلق روایت کیا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ کو قتل کیا جائے گا۔ جب ایک ضرب سے اس کا کام تمام ہوجائے اور اگر بہت سی ضربوں کی ضرورت ہو تو پھر نہیں۔ پتھر اور تیر مارے جائیں گے کیونکہ اس میں تعذیب ہے۔ یہ عبدالملک کا قول ہے۔ ابن عربی نے کہا : علماء کے اقوال میں سے صحیح یہ ہے کہ مماثلت (برابری) واجب ہے، مگر یہ کہ تعذیب ہوتی ہو تو پھر تلواز سے قتل کیا جائے گا۔ اور ہمارے علماء کا اتفاق ہے کہ جب کسی کا ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیا اور اس کی آنکھ پھوڑ دی اور اس نے اسے عذاب دینے کا قصد کیا تھا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ جس طرح نبی کریم ﷺ نے بیت المال کے اونٹوں کے چرواہے کے قاتلوں کے ساتھ کیا تھا۔ اگر وہ مدافعت یا لڑائی میں تھا اور قتل کیا جائے گا۔ ایک جماعت کا قول اس کے خلاف ہے۔ وہ فرماتے ہیں : قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا۔ یہ امام ابو حنیفہ، شبعی اور نخفی کا قول ہے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے حجت پکڑی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قصاص نہیں ہے مگر لوہے کے ساتھ اور مثلی سے نہی کی گئی ہے۔ نیز فرمایا : آگ کے ساتھ صرف آگ کا رب ہی عذاب دے گا۔ صحیح مذہب جمہور کا ہے کیونکہ ائمہ نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ ایک لونڈی کا سر دوپتھروں میں رکھ کر کچلا گیا ہے۔ انہوں نے اس سے پوچھا : تیرے ساتھ یہ کس نے کیا تھا، کیا فلاں نے کیا فلاں نے ؟ حتیٰ کہ جب انہوں نے یہودی کا ذکر کیا تو اس نے سر سے (ہاں) میں اشارہ کیا۔ وہ یہودی پکڑا گیا تو اس نے اقرار کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس یہودی کا سر دوپتھروں کے درمیان کچلنے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے اسے دو پتھروں کے درمیان قتل کیا۔ یہ صریح صحیح نص ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد وان عاقبتم فعا قبوا بمثل ماعو قبتم بہٖ (النحل :126) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدٰی علیکم۔ اور نہوں نے حدیث جابر سے جو استدلال کیا ہے وہ حدیث محدثین کے نزدیک ضعیف ہے وہ صحیح طریق سے مروی نہیں ہے۔ اگر صحیح ہوتی تو ہم اس کے مطابق قول کرتے۔ جب لوہے کے ساتھ قتل کرے گا تو اسے لوہے کے ساتھ قتل کیا جائے گا اس پر حضرت انس کی حدیث دلالت کرتی ہے۔ ایک یہودی نے ایک بچی کا سر دوپتھروں کے درمیان کچل دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلنے کا حکم دیا۔ رہی مثلہ کرنے سے نہی تو بھی یہی کہتے ہیں کہ جب اس قاتل نے مثلہ نہ کیا ہو تو اس کا مثلہ نہیں کیا جائے گا۔ جب وہ مثلہ کرے گا تو ہم بھی اس کا مثلہ کریں گے۔ اس پر عرنیین کی حدیث دلالت کرتی ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے اسے ائمہ نے نقل کیا ہے۔ اور رہا کہ آگ کے ساتھ صرف آگ کا مالک عذاب دے گا۔ صحیح ہے جب اس نے نہ جلایا ہوا گر اس نے جلایا ہوگا تو اسے جلایا جائے گا۔ اس پر قرآن کا عموم دلالت کرتا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر قاتل جان بوجھ کر مقتول کو آگ میں ڈالا ہوگا تو اسے بھی آگ میں ڈالا جائے گا حتیٰ کہ وہ مر جائے۔ وقار نے اپنی مختصر میں مالک سے یہ روایت کیا ہے۔ یہی محمد بن عبدالحلیم کا قول ہے۔ ابن منذر نے کہا : بہت سے اہل علم کا قول، اس شخص کے بارے میں جو کسی کا گلہ دبا دیتا ہے یہ ہے کہ اس پر قصاص ہوگا۔ امام محمد بن حسن نے اس میں مخالف کی ہے۔ انہوں نے کہا : اگر اس نے گلا دبایا اور آدمی مرگیا یا اسے کنویں میں پھنکا اور وہ مرگیا یا اس نے اسے پہاڑ سے گرایا یا کسی بلند جگہ سے گرایا اور وہ مرگیا تو اس پر قصاص نہ ہوگا اور اس کے عاقلہ (خاندان) پر دیت ہوگی۔ اگر وہ شخص اس جرم میں معروف ہو اس نے کئی شخصون کا گلا دبایا ہو تو اس پر قتل ہے۔ ابن منذر نے کہا : جب نبی کریم ﷺ نے اس یہودی سے قصاص لیا جس نے یحییٰ کا سر پتھروں سے کچلا تھا تو یہ بھی اس کے مفہوم میں ہے۔ پس امام محمد بن حسن کے قول کا کوئی معنی نہیں۔ میں کہتا ہوں : یہی قول امام ابوحنیفہ سے حکایت کیا گیا ہے، نقل کرنے والے نے کہا : امام ابوحنیفہ سے حکایت کیا گیا ہے، نقل کرنے والے نے کہا : امام ابوحنیفہ کا قول منفرد ہے۔ انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے گلا دبا کر قتل کیا ہو یا زہر دے کر قتل کیا ہو یا پہاڑ سے گرایا ہو یا کنویں میں گرایا ہو یا لکڑی کے ساتھ مارا ہوا سے قتل کیا جائے گا اور نہ اس سے قصاص لیا جائے گا مگر جس نے اسکو تیز دھار آلہ کے ساتھ یا پتھر کے ساتھ یا لکڑی کے ساتھ قتل کیا ہو وہ گلا دبانے میں معروف ہو یا پہاڑ سے گرانے میں معروف ہو تو اسکے عاقلہ پر دیت ہوگی۔ یہ انکی طرف سے کتاب وسنت کو چھوڑنا ہے اور امت کا معاملہ جس پر قائم تھا اس میں بدعت نکالنا ہے اور یہ قصاص کو دور کرنے کا ذریعہ ہے جسکو اللہ تعالیٰ نے نفوس کیلئے مشروع کیا ہے۔ اس سے بھاگنا ممکن نہیں۔ مسئلہ نمبر 9: اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جسنے کسی کو روکا اور دوسرے نے اسے قتل کردیا۔ عطا نے کہا : قاتل کو قتل کیا جائے گا اور روکنے والے کو قید کیا جائے گا حتیٰ کہ وہ مرجائے۔ امام مالک نے کہا : اگر اس نے اسے روکا اور بھی اسے قتل کرنا چاہتا تھا تو دونوں کو قتل کیا جائے گا۔ امام شافعی، ابوثور، نعمان کے قول میں روکنے والے کو سزا دی جائیگی۔ ابن منذر نے اسکو اختیار کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : عطا کا قول صحیح ہے یہ نزول قرآن کا مقتضا ہے۔ دار قطنی نے حضرت ابن عمر سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب کوئی کسی شخص کو روک لے اور دوسرا اسے قتل کردے تو قاتل کو قتل کیا جائے گا اور کو روکنے والا ہوگا اسے قید کیا جائے گا۔ اس حدیث کو سفیان ثوری نے اسماعیل بن امیۃ سے انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کو معمر اور ابن جریج نے اسماعیل سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 10: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن اعتدٰی، الاعتداء کا معنی حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن یتعد حدود اللہ (جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا۔ ) پس جس نے تجھ پر ظلم کیا تو اپنے ظلم کی مقدار اس سے اپنا حق وصول کرلے اور جس نے تمہیں گالی دی تو اس کو اس کی مثل قول لوٹا دے۔ جس نے تیری عزت کو تارتار کیا تو بھی اس کی عزت کے ساتھ ایسا کر۔ تو اس کے والدین تک تجاوزنہ کر نہ اس کے بیٹے اور اس کے قریبی تک تجاوز کر اور تیرے لئے اس پر جھوٹ لولنا جائز نہیں اگرچہ اس نے تجھ پر جھوٹ بولا ہے کیونکہ معصیت کا مقابلہ معصیت کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ اگر مثلاً اس نے تجھے کہا : اے کافر ! تو بھی اسے کہہ سکتا ہے : تو کافر۔ اگر اس نے تجھے کہا : اے زانی ! تو تیرا قصاص اسے یہ کہنا ہے : اے جھوٹا ! جھوٹ کی گواہی دینے والا۔ اگر تو اسے اے زانی ! کہے تو تو جھوٹا ہوگا اور جھوٹ میں تو گنہگار ہوگا۔ اگر وہ قرضہ وغیرہ کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتا ہے حالانکہ وہ غنی ہے کوئی عذر بھی نہیں ہے تو تو اسے کہہ : اے ظالم ! اے لوگوں کا مال کھانے والا ! نبی کریم ﷺ نے فرمایا : غنی کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس کی سزا کو حلال کردیتا ہے۔ عرض سے مراد وہی ہے جو ہم نے تفسیر بیان کی ہے اور عقوبت سے مراد قید خانہ ہے جس میں اسے قید کیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ اسلام کے قوی ہونے سے پہلے نازل ہوا تھا۔ مسلمانوں میں سے جس کو اذیت دی جاتی تھی اسے اپنی ذات کے برابر اذیت کا حکم تھا یا وہ صبر کرے یا معاف کردے پھر اس کو اس قول کے ساتھ منسوخ کردیا وقاتلوا المشرکین کآفةً (التوبہ :36) بعض علماء نے فرمایا اس کو سلطان کی طرف لوٹا نے کے ساتھ منسوخ کیا اور کسی کے لئے سلطان کی اجازت کے بغیر کسی قصاص لینا جائز جائز نہیں۔
Top