Al-Qurtubi - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے (شب تاریک میں) آگ جلائی، جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو خدا نے ان لوگوں کی روشنی زائل کردی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے
آیت نمبر 17 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مثلھم کمثل الذی استوا قد نارا مثلھم مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے خبر کاف میں ہے یہ اسم ہے جیسا کہ اعشی کے قول میں ہے : اتنتھون ولن ینھی ذوی شطط کالطعن یذھب فیہ الزیت والفتل (3) کیا تم روکتے ہو جبکہ ظالم لوگ پیٹ تک پہنچنے والے تیر کی طرح نہ رکیں گے جس میں تیل اور ڈیوٹ چلی جاتی ہے۔ امراء القیس کا شعر ہے : ورحمنا بکابن الماء یجنب وسطنا تصوب فیہ العین طوراً وترتقی ان اشعار میں ک بمعنی مثل ہے یعنی مثل الطعن اور بمثل ابن الماء مراد لیا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ خبر محذوف ہو۔ تقدیر کلام یوں ہو : مثلھم مستقر کمثل۔ اس صورت میں کاف حرف ہوگا، المثل، المثل والمثیل تمام کا معنی ایک ہے اور اس کا معنی شبیہ ہے۔ متماثلان کا معنی متشابھان ہے۔ اہل لغت نے اسی طرح کہا ہے (1) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد الذی یہ اسم موصول واحد اور جمع کے لئے واقع ہوتا ہے۔ ابن الشجری ہبۃ اللہ بن علی نے کہا : کچھ عرب جمع کو واحد کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں۔ جیسے شاعر نے کہا : وان الذی حانت بفلج دمائھم ھم القوم کل القوم یا ام خالد وہ لوگ جن کے خون بہنے کا وقت فلج کے مقام پر قریب آیا تو اے ام خالد ! وہ قوم ہی کامل قوم تھی۔ (اس شعر میں الذی کو جمع کے لئے استعمال کیا گیا ہے) ۔ بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے اس قول والذی جاء بالصدق وصدق بہ اولئک ھم المتقون۔ (الزمر) میں بھی یہی کہا ہے (یعنی الذی بمعنی الذین ہے) یہ اس لغت کے اعتبار سے ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مثلھم کمثل الذی۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے : کمثل الذی استوقد۔ اسی لئے آگے فرمایا ذھب اللہ بنورھم (یعنی جمع کی ضمیر ذکر فرمائی) کلام کے آغاز کو واحد پر اور آخر کو جمع پر محمول کیا، رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد وخضتم کالذی خاضوا (توبہ : 69) اس میں الذی مصدر محذوف کی صفت ہے تقدیر کلام اس طرح ہوگی : خضتم کالخوض الذی خاضوا۔ بعض علماء نے فرمایا : الذی اور استوقد واحد ذکر فرمایا کیونکہ آگ جلانے والا ایک تھا اگر آگ جلانا اس کے سپرد تھا۔ جب روشنی ختم ہوگئی تو ان تمام کی طرف رجوع فرمایا۔۔۔ فرمایا : بنورھم۔ استوقد بمعنی اوقد ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب ہے سین اور تاء زائدہ ہیں۔ یہ اخفش کا قول ہے۔ شاعر کا قول ہے : وداع دعا یا من یجیب الی الندی فلم یستجبہ عند ذاک مجیب پکارنے والے نے پکارا : اے آواز کا جواب دینے والے ! اس وقت کسی جواب دینے والے نے جواب نہ دیا۔ نحویوں کا “ لما ” کے جواب میں اختلاف ہے اور نورھم کی ضمیر کے مرجع میں بھی اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : لما کا جواب محذوف ہے اور وہ طفئت ہے اور نورھم کی ضمیر کے مرجع میں بھی اختلاف ہے۔ یہ ان کی آخرت کی حالت کی خبر دی جا رہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فضرب بینھم بسور لہ باب (الحدید :13) (پس کھڑی کردی جائے گی ان کے اور اہل ایمان کے درمیان ایک دیوار جس کا ایک دروازہ ہوگا) ۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا جواب “ ذھب ” ہے اور نورھم میں ضمیر کا مرجع الذی ہے، اس قول کے مطابق منافق کی تمثیل آگ جلانے کے ساتھ مکمل ہوگی کیونکہ آگ جلانے والے کی بقاء تاریکیوں میں جو نہیں دیکھتا، اس منافق کی بقا کی طرح ہے جو حیرت وتردد میں ہوتا ہے۔ آیت کی مراد یہ ہے کہ یہ منافقین کے لئے مثال دی گئی ہے یہ اس طرح ہے کہ جو وہ ایمان ظاہر کرتے ہیں اس ایمان کی وجہ سے ان کے لئے مسلمانوں کے احکام ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً نکاح، توراث، غنائم، نفسوں، اولاد اور اموال پر امن وغیرہ یہ مشابہ ہے اس شخص کے جو تاریک رات میں آگ جلاتا ہے اس وجہ سے روشنی ہوجاتی ہے وہ دیکھتا ہے جس سے بچنا اور امن مناسب ہوتا ہے۔ پھر جب وہ آگ بجھ جاتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے تو اسے اذیت پہنچتی ہے اور وہ متحیر باقی رہ جاتا ہے۔ اسی طرح منافقین جب ایمان لائے تو انہوں نے اسلام کے کلمہ کے ساتھ دھوکا کیا پھر وہ مرنے کے بعد عذاب الیم کی طرف جائیں گے جیسا کہ قرآن حکیم نے بتایا : ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار (النساء : 145) (بےشک منافق سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے دوزخ (کے طبقوں) سے) اور ان کا نور چلار جائے گا، اس لئے وہ کہیں گے انظرونا نقتمس من نورکم (الحدید :13) ۔ ذرا ہمارا بھی انتظار کرو ہم بھی روشنی حاصل کریں تمہارے نور سے۔ بعض علماء نے کہا : منافقین کا مسلمانوں کی طرف متوجہ ہونا اور ان کے ساتھ ان کا کلام کرنا آگ کی طرح ہے اور ان کا ان کی مودت سے پھرنا اور ان کا ان سے منہ پھیرلینا اس آگ کے جانے کی طرح ہے (1) ، اس کے علاوہ بھی علماء کے اقوال ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ارًا، النار مؤنث ہے یہ نور سے مشتق ہے اس کا معنی بھی روشن کرنا ہے اور اس کا الف اصل میں واو کو یاء سے بدلا گیا کیونکہ ما قبل کسرہ ہے۔ ضاءت اور اضاءت دونوں لغتیں ہیں۔ کہا جاتا ہے : ضاء القمر یضواء ضوء واضاء یضییء۔ یہ لازم اور متعدی ہوتا ہے۔ محمد بن سمیقع نے ضاءت بغیر الف کے پڑھا ہے۔ عام لوگ الف کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ شاعر نے کہا : اضاءت لھم احسابھم ووجوھھم دجی اللیل حتی نظم الجذع ثاقبہ ما حولہ۔ ما زائدہ مؤکدہ ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ اضاءت کا مفعول ہے اور حولہ ظرف مکان ہے اور حالت جری میں ہے کیونکہ حول اس کی طرف مضاف ہے، ذھب اور اذھب دونوں لغتیں ہیں اور یہ ذھاب سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے کسی شے کا زوال۔۔۔ وترکھم یعنی انہیں باقی رکھا۔ فی ظلمت یہ ظلمۃ کی جمع ہے۔ اعمش نے لام کے سکون کے ساتھ ظلمات پڑھا ہے اور جنہوں نے لام کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے اسم اور لغت میں فرق کرنے کے لئے ایسا پڑھا ہے۔ اشہب عقیلی نے لام کے فتحہ کے ساتھ ظلمات پڑھا ہے۔ بصریوں نے کہا : ضمہ کو فتحہ سے بدلا گیا کیونکہ وہ خفیف ہے کسائی نے کہا : ظلمات، جمع الجمع ہے یہ ظلم کی جمع ہے۔ لا یبصرون فعل مضارع حال واقع ہو رہا ہے گویا یوں فرمایا : غیر مبصرین اس معنی کے اعتبار سے ظلمات پر وقف جائز نہ ہوگا۔
Top