Al-Qurtubi - Al-Baqara : 170
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَیْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا١ؕ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَهُمُ : انہیں اتَّبِعُوْا : پیروی کرو مَآ اَنْزَلَ : جو اتارا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْا : وہ کہتے ہیں بَلْ نَتَّبِعُ : بلکہ ہم پیروی کریں گے مَآ اَلْفَيْنَا : جو ہم نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا اَوَلَوْ : بھلا اگرچہ كَانَ : ہوں اٰبَآؤُھُمْ : ان کے باپ دادا لَا يَعْقِلُوْنَ : نہ سمجھتے ہوں شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَهْتَدُوْنَ : اور نہ ہدایت یافتہ ہوں
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھے راستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی تقلید کئے جائیں گے ؟
آیت نمبر 170 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واذا قیل لھم، ھم ضمیر سے مراد کفار عرب ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ یہ یہود کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ طبری کا قول ہے : لھم میں ضمیر، یا ایھا الناس میں جو الناس ہے اس کی طرف راجع ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : من یتخذ من دون اللہ میں جو من ہے اس کی طرف راجع ہے اور اتبعوا ما انزل اللہ یعنی قول و عمل میں قرآن کی اتباع کرو۔ قالوا بل نتبع۔۔۔ اباءنا، الفینا کا معنی ہے ہم نے پایا۔ شاعر نے کہا : فالفیتہ غیر مستعتب ولا ذاکر اللہ الا قلیلا میں نے اسے نہ تو بہ کرنے والا اور نہ اللہ کا ذکر کرنے والا پایا مگر تھوڑا۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولوکان ابآؤھم الف استفہام کے لئے ہے اور واو کو فتحہ دیا گیا ہے کیونکہ یہ واو عاطفہ ہے، جملہ کا عطف جملہ پر ہے کیونکہ فساد کی غایت التزام میں یہ ہے کہ وہ کہیں ہم اپنے آباء کی پیروی کریں گے اگرچہ وہ نہ بھی سمجھتے تھے۔ پس انہوں نے اپنے نظریہ سے چمٹے رہنے اور اس کے التزام کو ثابت کیا کیونکہ یہی ان کے آباء کی حالت تھی۔ مسئلہ : ہمارے علماء نے فرمایا : اس آیت کے الفاظ کی قوت، تقلید کے ابطال کا تقاضا کرتی ہے اسکی مثل یہ آیت بھی ہے۔ واذا قیل لھم۔۔۔۔۔ علیہ اباءنا (المائدہ : 104) (جب کہا جاتا ہے انہیں کہ آؤ اس کی طرف جو نازل کیا ہے اللہ نے اور آؤ (اس کے) رسول کی طرف تو کہتے ہیں : کافی ہے ہمیں جس پر پایا ہم نے اپنے باہ دادا کو) ۔ یہ آیت اور اس سے پہلے والی آیت اپنے ماقبل سے متصل ہیں۔ یہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں کی جہالت کے متعلق خبر دی کہ انہوں نے اپنی بیوقوفانہ آراء سے بحیرہ، سائبہ اور وصیلہ جانوروں کی حرمت کا فیصلہ کیا۔ اور انہوں نے حجت اس سے پکڑی کہ یہ ایک ایسا امر ہے جس پر انہوں نے اپنے آباء کو پایا اور اس میں ان کی اتباع کی اور اس کو چھوڑ دیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کیا اور جس کا اس نے اپنے دین میں حکم دیا۔ پس لھم میں ضمیر دونوں آیتوں میں کفار عرب کی طرف لوٹے گی۔ مسئلہ نمبر 3: بعض علماء نے اسی آیت کی وجہ سے تقلید کی مذمت کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی مذمت فرمائی کیونکہ انہوں نے باطل میں اپنے آباء کی اتباع کی تھی اور کفر و معصیت میں ان کی پیروی کی تھی۔ یہ مذمت تقلید باطل میں تو صحیح ہے لیکن حق میں تقلید کرنا اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور مسلمانوں کی عصمتوں میں سے ایک عصمت (حفاظت) ہے۔ جاہل جو خوف غور و فکر سے قاصر ہوتا ہے وہ اس کی طرف پناہ لیتا ہے۔ علماء کا اصول کے مسائل میں اس کے جواز میں اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا اور فروعی مسائل میں اس کا جواز صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر 4: علماء کے نزدیک تقلید کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کے قول کو بغیر دلیل کے قبول کرنا۔ اس معنی کے اعتبار سے جس نے نبی کریم ﷺ کے معجزات میں غور و فکر کے بغیر نبی کریم ﷺ کا قول قبول کیا وہ مقلد ہے اور جس نے معجزات میں غوروفکر کرکے آپ نے قول کو قبول کیا وہ مقلد نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : جو کسی کے قول کی صحت کو نہیں جانتا اس کے فتویٰ کی صحت کا اعتقاد کرنا تقلید ہے۔ لغت میں یہ قلادۃ البعیر (اونٹ کا ہار) سے ماخوذ ہے۔ عرب کہتے ہیں : قلدت البعیر، جب تو اس کے گلے میں ایسی رسی ڈالے جس کے ساتھ اس کو چلایا جائے۔ گویا مقلد اپنے تمام امور اپنے قائد کے سپرد کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے شاعر نے کہا وقلدوا امرکم للہ درکم ثبت الجنان بامر الحرب مضطلعا مسئلہ نمبر 5: تقلید یہ تو علم کا طریق ہے، نہ علم تک یہ پہنچانے والی ہے، نہ اصول میں ہے، نہ فروع میں ہے۔ یہ جمہور عقلاء اور علماء کا قول ہے جبکہ حشویہ اور ثعلبیہ جہال سے حکایت ہے کہ یہ (تقلید) حق کی معرفت کا ذریعہ ہے اور یہ واجب ہے اور غور و فکر حرام ہے۔ اور ان پر ہمارے علماء نے جو حجت پیش کی ہے وہ کتب اصول میں ہے۔ مسئلہ نمبر 6: عام آدمی پر فرض ہے کہ وہ احکام کے استنباط میں احکام کے اصول میں مشغول نہ ہو کیونکہ اسے اس کی اہلیت نہیں ہے اور یہ حکم اس کے لئے ہر اس دینی معاملہ میں ہے جس کو وہ خود نہیں جانتا اور وہ محتاج ہوتا ہے اپنے زمانہ اور اپنے شہر کے بڑے عالم کی طرف جانے کا۔۔۔ پس وہ ہر نئے مسئلہ کو اس سے پوچھے اور اس کو فتویٰ کی پیروی کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (النحل) (پوچھو اہل علم سے اگر تم (خود حقیقت حال کو) نہیں جانتے) ۔ اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے وقت کے بڑے عالم سے پوچھنے کی کوشش کرے تاکہ اکثر لوگوں کا اس پر اتفاق واقع ہو اور عالم پر بھی فرض ہے کہ وہ کسی بھی جدید مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی تقلید کرے جس میں دلیل و نظر کی وجہ اس پر مخفی ہوگئی ہے وہ اس میں غور وفکر کرنے کا ارادہ کرے حتیٰ کہ وہ مطلوب تک پہنچ جائے۔ پس اس کے پاس وقت تنگ ہو اور اسے عبادت کے فوت ہونے کا خوف ہو یا حکم کے ضیاع کا خوف ہو، خواہ وہ دوسرا مجتہد صحابی ہو یا کوئی اور ہو۔ قاضی ابوبکر اور محققین کی جماعت کا یہی قول ہے۔ مسئلہ نمبر 7: ابن عطیہ نے کہا : عقائد میں تقلید کے ابطال پر امت کا اجماع ہے۔ قاضی ابوبکر بن عربی، ابو عمر و عثمان بن عیسیٰ بن درب اس الشافعی جیسے علماء کا قول اس کے خلاف ذکر کیا ہے۔ ابن درب اس نے اپنی کتاب ” الانتصار “ میں کہا ہے کہ بعض علماء نے کہا : توحید کے امر میں تقلید جائز ہے۔ یہ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیی کا ارشاد ہے : انا وجدنا اباءنا علی امۃ (زخرف :22) اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنے آباء کی تقلید پر اور رسل کی اتباع ترک کرنے پر ان کی مذمت کی ہے جیسے اہل بدعت نے اپنے بڑوں کی تقلید کی اور دین میں حضرت محمد ﷺ کی اتباع کو ترک کیا کیونکہ ہر مکلف پر توحید کے امر کا سیکھنا فرض ہے اور ضروری ہے اور یہ کتاب و سنت سے ہی حاصل ہوتا ہے جس طرح آیت توحید میں ہم نے بیان کیا تھا۔ اللہ یھدی من یرید (الحج) ابن درب اس نے کہا : اکثر اہل زیغ کا قول یہ ہے کہ جو کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑتا ہے وہ مقلد ہے۔ یہ ان کی خطا ہے بلکہ یہ ان کے زیادہ لائق ہے ان کے مذہب کے مناسب ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے رہنماؤں اور بڑوں کے قول کو قبول کیا جن میں انہوں نے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت اور اجماع صحابہ کی مخالفت کی ہے۔ پس یہ ان میں داخل ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد سے مذمت کی ہے۔ ربنا انا اطعنا۔۔۔۔ لعنا کبیرا ( سورة احزاب) (اے ہمارے رب ہم نے پیروی کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑے لوگوں کی پس ان ظالموں نے ہمیں بہکا دیا سیدھی راہ سے الخ) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انا وجدنا ابآءنا۔۔۔۔۔ مھتدون۔ (زخرف) پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا۔ قل اولو جئتکم۔۔۔۔۔۔ بہ کفرون۔ (زخرف) (اس نبی نے فرمایا : اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ درست چیز اس سے جس پر پایا ہے تم نے اپنے باپ دادا کو (تب بھی ؟ ) انہوں نے جواب دیا : ہم جو دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے اس کو نہیں مانتے۔ پھر نبی کریم ﷺ کو فرمایا : فانتقمنا منھم پس ہم نے انتقام لیا ان سے۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ہدایت ان احکام میں ہے جو رسل (علیہم السلام) لے کر آئے۔ اہل اثر کا قول ان کے عقائد کے بارے میں نہیں ہے کہ ہم نے اپنے ائمہ اور آباء اور لوگوں کو کتاب و سنت اور صالحین کے اجماع پر پایا۔ اور کفار نے کہا : ہم نے اپنے آباء کو پایا اور ہم نے اپنے سادات اور بڑوں کی ایک راستہ میں اطاعت کی۔ چونکہ مسلمانوں نے اپنی اطاعت کو قرآن اور متابعت رسول کی طرف منسوب کیا جبکہ کافروں نے اپنے جھوٹ کو اہل باطل کی طرف منسوب کیا پس وہ گمراہی میں زیادہ ہوگئے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعریف فرمائی۔ ارشاد فرمایا : انی ترکت ملۃ۔۔۔۔۔۔ وعلی الناس (یوسف) (میں نے چھوڑ دیا ہے دین اس قوم کا جو نہیں ایمان لاتے اللہ پر نیز وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں اور میں تو پیروکار بن گیا اپنے باپ دادا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے دین کا، نہیں روا ہمارے لئے کہ ہم شریک ٹھہرائیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو (توحید پر ایمان) تو اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے) ۔ جبکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے آباء وحی کے متبعین تھے اور یہی دین خالص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اپنے آباء کی پیروی کرنا ان کی مدح کی صفات سے ہے۔ اور آپ وہ نہیں لائے جو وہ لائے تھے، اعراض کا ذکر اور اعراض کا جواہر کے ساتھ تعلق اور ان کا ان سے بدلنا پس یہ دلیل ہے کہ ان میں ہدایت نہیں اور نہ ان کے وضع کرنے والوں میں ہدایت ہے۔ ابن حصار نے کہا : ان کے ساتھ تلفظ دو سو سال بعد مامون کے زمانہ میں ظاہر ہوا تھا جب پہلی کتب کے ترجمے کئے گئے اور ان میں عالم کے قدیم اور حدوث میں اختلاف ظاہر ہوا اور جوہر اور اس کا ثوبت، عرض اور اس کی ماہیت میں اختلاف ظاہر ہوا۔ پس بدعتوں اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں کجی تھی۔ انہوں نے ان اصطلاحات کی حفاظت کی طرف جلدی کی اور ان کے ذریعے اہل سنت پر اغراب کا قصد کیا اور اہل ملت میں سے کمزور لوگوں پر شبہات کو داخل کرنے کا ارادہ کیا۔ معاملہ اسی طرح چلتا رہا حتیٰ کہ بدعت غالب آئی اور بدعتی ایک گروہ بن گیا اور سلطان پر معاملہ ملتبس ہوگیا حتیٰ کہ امیر نے خلق قرآن کا قول کیا اور لوگوں کو اس پر مجبور کیا اور امام احمد بن حنبل کو اس کی مخالفت پر سزا دی۔ اہل سنت کے علماء شیخ ابو الحسن اشعری، عبد اللہ بن کلاب اور ابن مجاہد، محاسبی اور دوسرے ان جیسے علماء نے ان کو جواب دینے کا بیڑا اٹھایا اور بدعتوں کے ساتھ ان کی اصطلاحات میں غور و خوض کیا پھر ان کے ساتھ جنگ کی اور ان کے ہتھیاروں کے ساتھ انہیں قتل کیا جو مسلمان کتاب و سنت کو پکڑنے والے تھے اور ملحدین کے شبہات سے اعراض کرنے والے تھے۔ انہوں نے جوہر اور عرض میں غور نہ کیا اور اسی پر سلف صالحین تھے۔ میں کہتا ہوں : جس نے اب متکلمین کی اصطلاح میں غور و فکر کیا حتیٰ کہ اس کے ساتھ دین کا دفاع کیا اس کا مرتبہ انبیاء کے مرتبہ کے قریب ہے۔۔۔ اور جو غالی متکلمین میں سے ان لوگوں کے راستہ پر چلا جنہوں نے اثر کو مضبوطی سے پکڑا اور علم کلام کی کتب کے درس پر برانگیختہ کیا اور وہ حق کو صرف ان اصطلاحات کے واسطہ سے پہچانتا تھا تو وہ مذموم ہوگیا کیونکہ انہوں نے سابقہ ائمہ کے راستہ کو چھوڑ دیا۔۔۔ دلیل اور حجت کے ساتھ جھگڑنا یہ تو قرآن میں واضح ہے۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔
Top