Al-Qurtubi - Al-Baqara : 169
اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
اِنَّمَا : صرف يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے بِالسُّوْٓءِ : برائی وَالْفَحْشَآءِ : اور بےحیائی وَاَنْ : اور یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
وہ تم کو برائی اور بےحیائی ہی کے کام کرنے کو کہتا ہے اور یہ بھی کہ خدا کی نسبت ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں (کچھ بھی) علم نہیں
آیت نمبر 169 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما یامرکم بالسوء والفحشاء سؤ کو سؤ اس لئے کہا جاتا ہے : آدمی اپنے مقابل کو برے انجام سے پریشان کرتا ہے۔ سوء، ساء یسؤ سوء اور مساءۃ کا مصدر ہے، جب کوئی کسی کو پریشان کرے۔ سؤتہ فسیئ جب اس نے اسے پریشان کیا تو وہ پریشان ہو یا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سیئت وجوہ الذین کفروا (الملک : 27) شاعر نے کہا : ان یک ھذا الدھر قد ساءنی فطالما قد سرنی الدھر الامر عندی فیھما واحد لذاک شکر ولذاک صبر اگر اس زمانہ نے مجھے پریشان کیا ہے تو اس نے مجھے خوش بھی کیا تھا۔ میرے نزدیک دونوں حالتوں میں معاملہ ایک ہے۔ خوشی کے لئے شکر ہے اور تکلیف اور پریشانی کے لئے صبر ہے۔ الفحشاء برے منظر کو کہتے ہیں۔ جیسے شاعر نے کہا : وجید کجید الریم لیس بفاحش (اور اس کی گردن، ہرن کی گردن کی طرح ہے وہ بری نہیں ہے) پھر یہ لفظ برے معانی کے لئے استعمال ہونے لگا۔ شرع ہی کسی چیز کو حسین اور قبیح بناتی ہے، ہر وہ چیز جس سے شریعت نے منع فرمایا وہ فحشاء میں سے ہے۔ مقاتل نے کہا : قرآن میں فحشاء کا ذکر جہاں بھی آیا ہے اس سے مراد زنا ہے سوائے اس ارشاد کے الشیطن یعدکم۔۔۔۔ بالفحشاء (البقرہ : 268) یہاں فحشاء سے مراد زکاۃ نہ دینا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس بنا پر بعض علماء نے کہا السؤ وہ جرم ہے جس میں حد نہیں اور الفحشاء وہ گناہ ہے جس میں حد ہے۔ حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان تقولوا علی اللہ مالا تعلمون طبری نے کہا : کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو انہوں نے بحیرہ اور سائبہ میں سے حرام کی تھیں اور انہیں اپنی طرف سے شرح بنایا تھا۔ وان تقولوا بالسوء والفحشاء پر عطف کی بنا پر محل جر میں ہے۔
Top