Al-Qurtubi - Al-Baqara : 161
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوئے وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر لَعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالنَّاسِ : اور لوگ اَجْمَعِيْنَ : تمام
جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ایسوں پر خدا کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی لعنت
آیت نمبر 161 تا 162 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وھم کفار واو حالیہ ہے۔ ابن عربی نے کہا : مجھے میرے اکثرمشائخ نے بتایا کہ معین کافر پر لعنت جائز نہیں کیونکہ اسکی وفات کی حالت معلوم نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لعنت کے اطلاق میں کفر پر وفات شرط رکھی ہے۔ اور وہ روایت جو نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے متعین کفار پر لعنت کی۔ تو یہ اس لئے تھا کہ نبی کریم ﷺ کو ان کے انجام کا علم تھا۔ ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک ظاہر حال کی وجہ سے لعنت کرنا اور اسے قتل کرنا اور اس سے قتال کرنا جائز ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! عمرو بن العاص نے میری ہجو کی اسے معلوم ہے کہ میں شاعر نہیں ہوں تو اس پر لعنت کر اور اس کی ہجو کر جتنی اس نے میری ہجو کی، آپ ﷺ نے عمرو بن العاص پر لعنت کی اگرچہ ایمان، دین اور اسلام اس کا انجام تھا۔ آپ ﷺ نے انصاف فرمایا کہ عرض کی : جتنی اس نے میری ہجو کی ہے اتنی اس کی ہجو فرما، زیادتی نہیں کی تاکہ وہ عدل و انصاف کو جان لے اور ہجو کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا یہ باب الجزاء سے ہے۔ اس وصف سے ابتدا نہیں کی۔ جس طرح مکر، استہزا اور خدیعہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بلند وبالا ہے اس سے جو ظالم کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : بغیر تعیین کے تمام کفار پر لعنت کرنے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ امام مالک نے واؤد بن حصین کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اعرج کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے لوگوں کو پایا کہ وہ رمضان میں کفار پر لعنت کرتے تھے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : خواہ کفار ذمی ہوں یا ذمی نہ ہوں یہ واجب نہیں۔ لیکن کو کفار پر لعنت کرے اس کے لئے مباح ہے کیونکہ انہوں نے حق کا انکار کیا اور دین اور دینداروں سے عداوت کی۔ اسی طرح جو سر عام گناہ کرے جیسے شراب پینے والے، سود کھانے والے اور جو عورتوں میں سے مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور مردوں میں سے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ان کے علاوہ جن کے متعلق احادیث میں لعنت وارد ہے۔ مسئلہ نمبر 2: کافر کو لعنت کرنا کفر پر زجر کے اعتبار سے نہیں بلکہ وہ کفر پر جزا اور اس کے کفر کے قبح کے اظہار کے طور پر ہے کافر مردہ ہو یا مجنون ہو۔ سلف کی ایک قوم نے کہا : جو کافر مجنون ہے یا جو کافر مر چکا ہے اس کو لعنت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں یہ بطریق جزا جائز ہے اور نہ بطریق زجر کیونکہ وہ اس سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس معنی کے اعتبار سے آیت سے مراد یہ ہوگا کہ لوگ قیامت کے دن اسے لعنت کریں گے تاکہ وہ اس سے متاثر ہوا سے نقصان پہنچے اور اس کا دل دکھے۔۔۔ تو یہ اس کے کفر پر جزا ہوگی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ثم یوم۔۔۔۔۔۔ بعضا (عنکبوت : 25) اس قول پر دلیل ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینا ہے کہ وہ ان پر لعنت کرتا ہے یہ بطور امر نہیں ہے۔ ابن عربی نے کہا : معین گنہگار کو لعنت کرنا بالاتفاق جائز نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ ایک بار شراب پینے والے کو لایا گیا تو موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا اللہ اس پر لعنت کرے اسے کتنی بار لایا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے معاون نہ ہو۔ آپ نے اس کے لئے اخوت کی حرمت کا ذکر کیا، یہ شفقت کا موجب ہے، یہ حدیث صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں : بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ بعض علماء نے معین گنہگار کو لعنت کرنے میں جواز کا قول کیا ہے۔ انہوں نے کہا : نبی کریم ﷺ نے یہ ارشاد نعیمان کے حق میں فرمایا جبکہ اس پر حد قائم ہوچکی تھی۔ اور جس پر اللہ تعالیٰ کی حد قائم ہوجائے اسے لعنت کرنا مناسب نہیں اور جس پر حد قائم نہ ہو اسے لعنت کرنا جائز ہے۔ خواہ اس کا نام لیا گیا ہو یا متعین کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو کیونکہ نبی کریم ﷺ لعنت نہیں فرماتے تھے مگر اس پر جس پر لعنت واجب ہوتی ہے جب تک وہ اس لعنت کی موجب حالت پر باقی رہتا، جب وہ اس جرم سے توبہ کرلیتا اور اس کو ختم کردیتا، اور حد اسے پاک کردیتی تو لعنت اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتی۔ اس کو نبی کریم ﷺ کے اس فرمان نے واضح کیا ہے : جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اسے حد لگا ﷺ اور اسے برا نہ کہو۔۔۔ یہ حدیث اپنی صحت کے ساتھ اس بات پر دلیل ہے کہ تثریب (برا بھلا کہنا) اور لعنت کرنا حد لگنے سے پہلے اور توبہ کرنے سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ اعلم۔ ابن عربی نے کہا : گنہگار پر مطلقا لعنت کرنا بالاجماع جائز ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے جو انڈا چوری کرتا ہے پھر اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولئک علیھم۔۔۔۔ اجمعین یعنی اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے دور کرتا ہے۔ اللعن کا اصل معنی دھتکارنا دور کرنا ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ بندوں کی طرف سے لعنت، دھتکارنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت عذاب ہے۔ حسن بصری نے والملائکۃ والناس اجمعون حالت رفعی میں پڑھا ہے اس کی تاویل یہ ہے : اولئک جزاءھم ان یلعنھم الملائکۃ ویلعنھم الناس اجمعون۔ جیسے تو کہتا ہے : کرھت قیام زید و عمرو خالد کیونکہ اس کا معنی ہے کرھت ان قام زید۔ حسن کی قراءت مصاحف کے مخالف ہے۔ اگر کہا جائے : تمام لوگ تو لعنت نہیں کرتے کیونکہ اسن کی قوم تو انہیں لعنت نہیں کرتی۔ اس کے تین جواب دئیے گئے ہیں : (1) اکثر لوگوں کی طرف سے لعنت ہوتی ہے اس لئے تمام لوگوں کی لعنت کا اطلاق کیا گیا۔ اکثر کو اقل پر غلبہ دیا گیا۔ سدی نے کہا : ہر ایک ظالم پر لعنت کرتا ہے جب کافر ظالم پر لعنت کرتا ہے تو وہ اپنے آپ پر لعنت کرتا ہے۔ ابو العالیہ نے کہا : اس سے مراد قیامت کے دن کی لعنت ہے تمام لوگوں کے ساتھ ان کی قوم بھی انہیں لعنت کرے گی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولا ھم ینظرون یعنی کسی وقت بھی عذاب سے مؤخر نہیں کئے جائیں گے خلدین، علیھم میں ہا اور میم سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اس میں عامل علیھم کا قول ظرف ہے۔ کیونکہ اس میں لعنت کے استقرار کا معنی ہے۔
Top