Al-Qurtubi - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
آیت نمبر 156 تا 157 اس میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مصیبۃ : ہر وہ چیز جو مومن کو اذیت اور تکلیف دیتی ہے وہ مصیبت ہے۔ کہا جاتا ہے : اصابہ، اصابۃ و مصابۃ ومصابا۔ اور مصیبۃ کی جمع مصائب ہے۔ المصوبۃ (صاد کے ضمہ کے ساتھ) مصیبت کی مثل ہے۔ عرب ہمزہ کے ساتھ جمع بناتے ہیں۔ المصائب اس کی اصل واو ہے گویا انہوں نے اصلی کو زائد کے ساتھ مشابہت دی۔ اس کی جمع مصارب بھی آتی ہے یہ اصل ہے۔ المصاب الاصابۃ۔ شاعر نے کہا : أسلیم ان مصابکم رجلا اھدی السلام تحیۃ ظلم وصاب السھم القرطاس، یصیب صیبابہ، اصاب کے معنی میں ہے۔ المصیبۃ۔ النکبۃ ینکبھا الانسان۔ اور یہ شر میں استعمال ہوتا ہے۔ حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک رات چراغ بجھ گیا تو آپ ﷺ نے پڑھا : انا للہ وانا الیہ رجعون۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! کیا یہ بھی مصیبت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ہر وہ چیز جو مومن کو اذیت دے وہ مصیبت ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ معنی صحیح حدیث میں ثابت ہے جو مسلم نے حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے، ان دونوں حضرات نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ مومن کو جو مصیبت، تھکم، بیماری، غم، حتیٰ کہ دل کا روگ جو اسے پریشان کرتا ہے، لاحق ہوتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے گناہ مٹائے جاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اپنی سند کے ساتھ حضرت فاطمہ بنت حسین سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو کوئی مصیبت لاحق ہوئی ہو پھر اس نے اپنی مصیبت کو یاد کیا اور پھر انا للہ وانا الیہ رجعون۔ پڑھا ہو اگرچہ اس مصیبت کو بہت سا عرصہ گرز چکا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسی طرح کا اجر لکھ دیتا ہے جس دن اسے مصیبت پہنچتی تھی۔ مسئلہ نمبر 3: مصائب میں سے بڑی مصیبت دین کی مصیبت ہے۔ ابو عمر نے فریابی سے ذکر کیا ہے، فرمایا : ہمیں فطر بن خلیفہ نے بیان کیا، فرمایا : ہمیں حضرت عطا بن ابی رباح نے بیان کیا، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مایا : جب تم میں سے کسی کو مصیبت پہنچے تو میری وجہ سے جو اسے مصیبت پہنچی ہے اسے یاد کرنا چاہئے کیونکہ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ یہ سمرقندی ابو محمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے۔ ابو نعیم نے ہمیں بتایا، ہمیں فطر نے بتایا۔۔۔ پھر اسی طرح حدیث بیان کی ہے۔ اسی طرح مکحول سے مرسلاً روایت کی ہے۔ حضرت ابوعمر نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا کیونکہ آپ سے جدائی کی مصیبت ہر مصیبت سے بڑی ہے جو آپ ﷺ کے بعد قیامت تک بندہ مومن کو پہنچنے والی ہے۔ آپ ﷺ کے جانے سے وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا، نبوت کا دروازہ بند ہوگیا۔ سب سے پہلا شر جو ظاہر ہوا وہ عربوں وغیرہ کا ارتداد تھا۔ یہ خیر کا پہلا انقطاع اور پہلا نقصان تھا۔ حضرت ابو سعید نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کی قبر کی مٹی سے ہاتھ نہیں جھاڑے تھے حتیٰ کہ ہمارے دلوں نے انکار کیا۔ ابو العتاہیہ نے اپنی نظر میں اس حدیث کے معنی کو کتنا حسین انداز میں پیش کیا ہے۔ اصبر لکل مصیبة و تجلد واعلم بان المرء غیر مخلد اوما تری ان المصائب جمۃ وتری المنیۃ للعباد بمرصد من لم یصب ممن تری بمعیبة ھذا سبیل لست فیہ باوحد فاذا ذکرت محمد و مصابہ فاذکر مصابک بالنبی محمد ﷺ تو ہر مصیبت اور تکلیف پر صبر کر اور جان لے کہ انسان ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ مصیبتیں بہت سی ہیں اور موت بندوں کی تاڑ میں ہے۔ کون ہے جن کو مصیبت نہیں پہنچی، تو اس راستہ میں اکیلا نہیں ہے۔ جب تو حضرت محمد ﷺ اور آپ کی مصیبت کو ذکر کرے تو اپنی مصیبت کو نبی محمد ﷺ کے ساتھ یاد کرو۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انا للہ وانا الیہ رجعون اللہ تعالیٰ نے ان کلمات کو مصیبت زدہ کے لئے پناہ گاہ بنایا ہے اور آزمائش میں مبتلا کئے گئے لوگوں کے لئے حفاظت کا باعث بنایا ہے، کیونکہ یہ مبارک معانی کا جامع ہے کیونکہ اناللہ کا قول توحید اور عبودیت کا اقرار ہے اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کا اقرار ہے اور وانا الیہ رجعون کا ارشاد اپنے نفسوں پر ہلاکت کا اقرار ہے اور قبور سے اٹھنے کا اقرار ہے اور اس پر یقین کا اظہار ہے کیونکہ تمام امور کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا یہ کلمات، ہمارے نبی سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کئے گئے۔ اگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) اس کو پہچان لیتے تو یہ نہ کہتے یا اسفی علی یوسف۔ مسئلہ نمبر 5: ابو سفیان نے کہا : میں نے اپنے بیٹے سنان کو دفن کیا جبکہ ابو طلحہ خولانی قبر کے کنارہ پر کھڑے تھے۔ جب میں نے قبر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے میرے ہاتھ سے پکڑا اور مجھ سے محبت کا اظہار کیا اور کہا : اسے ابو سنان ! کیا میں تجھے بشارت نہ دوں۔ محمد ضحاک نے حضرت ابو موسیٰ سے روایت کرکے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب بندے کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے : کیا تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں : ہاں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : کیا تم نے اس کے دل کا پھل توڑ لیا ہے ؟ وہ کہتے ہیں : ہاں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : میرے بندے نے (اس صدمہ پر) کیا کہا ؟ فرشتے کہتے ہیں : اس نے تیری حمد کی اور انا للہ وانا الیہ رجعون پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کے لئے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ مسلم نے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا ہے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ مسلمان کو جو مصیبت پہنچتی ہے پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اناللہ وان الیہ رجعون اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیراً منھا، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس سے بہتر بدلا دیتا ہے۔ یہی تنبیہ ہے وبشر الصبرین۔ کے ارشاد پر۔ یا تو نعم البدل مل جائے گا جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ کو رسول اللہ ﷺ کی ذات عطا فرمائی تھی، جب ان کا خاوند ابو سلمہ فوت ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا تھا۔ یا بڑا ثواب عطا فرماتا ہے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ کی حدیث میں ہے اور کبھی یہ دونوں چیزیں ملتی ہیں۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولئک علیھم صلوت من ربھم ورحمۃ یہ صبر کرنے والوں اور انا للہ وانا الیہ رجعون کہنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بندے پر صلاۃ کا مطلب، اس کا عفو، رحمت، برکت اور دنیا و آخرت میں شرف بخشا ہے۔ رجاج نے کہا : اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلاۃ کا مطلب بخشا اور اچھی تعریف ہے۔ اسی سے میت پر صلاۃ ہے۔ یہ اس کی تعریف اور اس کے لئے دعا ہے۔ رحمت کا لفظ دوبارہ ذکر فرمایا۔ اس کی وجہ تاکید اور معنی کا اشاع ہے کیونکہ لفظ مختلف ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا من البنیات والھدیٰ ۔ اور ارشاد ہے : ام یحسبون انا لا نسمع سرھم ونجوھم (زخرف : 80) شاعر نے کہا : صلی علی یحییٰ واشیاعہ رب کریم و شفیع مطاع یحییٰ اور اس کے گروہ پر رب کریم اور شفیع مطاع نے صلاۃ بھیجی۔ بعض علماء نے فرمایا : رحمت سے مراد مصیبت کا دور کرنا اور حاجت کو پورا کرنا ہے۔ بخاری میں ہے، حضرت عمر نے فرمایا : نعم العدلان ونعم العلاہ : الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ و انا الیہ رجعون۔ اولئک۔۔۔۔۔ المھتدون۔ (بقرہ) (عدلان سے مراد الصلاۃ اور رحمت ہے اور علاوہ سے مراد اولئک ھم المھتدون ہے (عدلان، اونٹ کے دونوں طرفوں کے بوجھ کو کہتے ہیں اور علاوہ وہ بوجھ ہوتا ہے جو اونٹ کی پیٹھ پر ہوتا ہے) بعض علماء نے فرمایا : رحمت سے مراد ثواب کا استحقاق اور اجر کا بڑا کرنا ہے۔ بعض نے فرمایا : مصائب کا آسان کرنا اور حزن میں تخفیف کرنا ہے۔
Top