Al-Qurtubi - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمہیں خدا کافی ہے اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
آیت نمبر 137 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان اٰمنوا بمثل مآ اٰمنتم بهٖ ققد اھتدوا یہ خطاب حضرت محمد ﷺ اور آپ کی امت کو ہے۔ اس کا معنی ہے : اگر یہ ایمان لائیں تمارے ایمان کی مثل اور تصدیق کریں تمہاری تصدیق کی طرح تو وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ دونوں ایمانوں کے درمیان مماثلت ہے۔ بعض نے فرمایا : باء زائدہ مؤکدہ ہے۔ ابن عبس اس طرح پڑھتے تھے جس طرح طبری نے حکایت کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : زائدہ مؤکدہ ہے۔ ابن عبس اس طرح پڑھتے تھے جس طرح طبری نے حکایت کیا ہے۔ فان آمنوا بالذی آمنتم به قفد اھتدوا۔ یہ قراءت کا معنی ہے اگرچہ مصحف کے مخالف ہے۔ مثل کا لفظ زائدہ ہے جسے اس قول میں ہے : لیس کمثلهٖ شیء (الشوریٰ :11) (یعنی لیس کھوشی) میں مثل زائدہ ہے۔ شاعر نے کہا : فصیروا مثل کعصف ماکول اس مصرعہ میں بھی مثل زائدہ ہے۔ بقیہ نے روایت کیا ہے کہ ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے فرمایا : تم یہ نہ کہو : فان اٰمنوا بمثل مآ امنتم بهٖ ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کوئی مثال نہیں ہے بلکہ تم کہو : بالذی آمنتم بهٖ ۔ علی بن نصر جہضیمی نے شعبہ سے روایت کرنے میں بقیہ کی متابعت کی ہے۔ یہ بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ معنی یہ ہے : اگر وہ تمہارے نبی پر اور تمام انبیاء پر ایمان لائیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں جس طرح تم نے تفریق نہیں کی تو وہ ہدایت پاجائیں گے اگر وہ اس کا انکار کریں سوائے تفریق کے وہ دین سے منہ پھیر کر شقاق کی طرف جانے والے ہیں فسیکفیکھم اللہ اہل نظر میں سے ایک جماعت نے حکایت کیا ہے۔ فرمایا لیس کمثلهٖ شیء (الشوریٰ :11) میں کاف زائدہ ہے۔ فرمایا : اور حضرت ابن عباس سے جو قراءت عامہ سے نہی مذکور ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تشبیہ کی نفی میں مبالغہ کلئے ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ حضرت ابن عباس سے تفسیر کے طور پر ہے یعنی اس طرح تاویل کرنی چاہئے۔ بعض نے فرمایا : مثل اپنے معنی پر ہے یعنی نازل شدہ کی مثل اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : وقل آمنت بما انزل اللہ من کتاب اور یہ ارشاد ہے : وقولوا اٰمنا بالذیٓ انزل الینا وانزل الیکم (العنکبوت : 46) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان تولوا یعنی اگر وہ ایمان سے اعراض کریں فانما ھم فی شقاقٍ (وہ مخالفت پر کمر بستہ ہیں) زید بن اسلم نے فرمایا شقاق کا معنی جھگڑا ہے۔ بعض نے فرمایا : شقاق کا معنی جھگڑا کرنا ہے، مخالف کرنا اور دشمنی کرنا ہے۔ اس کی اصل الشق سے ہے جس کا معنی جانب ہے۔ گویا ہر فریق اپنے مخالف کی دوسری شق (طرف) میں ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا : الی کم تقتل العلماء و تفجر بالشقاق و بالنفاق ایک اور شاعر نے کہا : و الا فاعلموا وانتم بغاۃ ما بقینا فی شقاق بعض نے فرمایا : شقاق، مشکل کام سے ماخوذ ہے، دونوں فریقوں میں سے ہر فریق دوسرے پر مشکل پیدا کرنے کا حریص ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فسیکفیکھم اللہ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی طرف سے اس کے دشمن کو کافی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی سے وعدہ ہے کہ وہ ہر معاندد مخالف کی طرف سے مومنین کے ذریعے کفایت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ یہ نبی قینقاع، بنی فریظہ کے قتل اور بنی نضیر کی جلاوطنی میں پورا ہوا۔ کاف، ہا، میم محل نصب میں، دونوں مفعول ہیں، اور غیر قرآن میں فسیکفیک ایاھم بھی جائز ہے۔ اس حرف فسیکفیکھم اللہ پر حضرت عثمان ؓ کا خون گرا تھا جب وہ شہید ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی شہادت کی خبر دی تھی۔ السمیع وہ کہنے والے کی بات کو سننے والا ہے العلیم اپنے بندوں میں جو نافذ کرتا ہے اور ان پر جاری کرتا ہے۔ حکایت ہے کہ ابودلامہ، منصور کے پاس گیا، اس کے اوپر ایک لمبی ٹوپی تھی اور ان کے کندھوں کے درمیان جبہ کے اوپر فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم لکھا ہوا تھا اور اس کی کمر میں تلوار لٹک رہی تھی۔ منصور نے لشکر کو اس لباس کا حکم دیا تھا۔ منصور نے کہا : تیرا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس کا چہرہ اس کے وسط میں ہو، جس کی تلوار اس کی سرین میں ہو اور کتاب اللہ کو پیٹھ کے پیچھے ڈالا ہوا ہو۔۔۔۔ منصور اس پر ہنسا اور اس لباس کو اسی وقت تبدیل کرنے کا حکم دیا۔
Top