Al-Qurtubi - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
آیت نمبر 11 اذا ظرف کی بنا پر حالت نصبی میں ہے اور اس میں عامل قالوا ہے، اذا یہ فعل منتظر کے وقوع پر دلالت کرتا ہے۔ جوہری نے کہا اذا اسم ہے جو زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے اور یہ جملہ کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے مثلاً اجیئک اذا احمر البسر واذا قدم فلان، یعنی میں تیرے آؤں گا جب کھجوریں سرخ ہوجائیں گے اور جب فلاں آجائے اور جو چیز اس کے اسم ہونے پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ یوم کی جگہ واقع ہوتا ہے۔ مثلاً آتیک یوم یقدم فلان یہ ظرف ہے اور اس میں مجازاۃ کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ شرط کی جزا تین چیزیں ہوتی ہیں : الفعل، الفاء اور اذا۔ فعل کی مثال ان تاتنی آتک۔ فاء کی مثال ان تاتنی فانا احسن الیک، اذا کی مثال، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان تصبھم سیئۃ بما قدمت ایدیھم اذاھم یقنطون۔ (الروم) اور اگر پہنچتی ہے انہیں کوئی تکلیف بوجہ ان کرتوتوں کے جو آگے بھیجے ہیں ان کے ہاتھوں نے تو وہ ما یوس ہوجاتے ہیں۔ مجازاۃ کے معنی میں اذا اس شعر میں استعمال ہوا ہے : اذا قصرت اسیافنا کان وصلھا خطانا الی اعدائنافتضارب جب ہماری تلواریں قاصر آجائیں گی تو ہمارے قدم انہیں ہمارے دشمنوں تک پہنچائیں گے اور ہم انہیں ماریں گے۔ تضارب کا عطف کان پر ہے، اس لئے یہ مجزوم ہے۔ اگر نضارب مجزوم نہ ہوتا تو فنضارب نصب کے ساتھ ہوتا کبھی اذا پر ما تا کیداً ذکر کیا جاتا ہے پھر اس کے ساتھ جزم دی جاتی ہے۔ فرزدق کا قول ہے : فقام ابو لیلیٰ الیہ ابن ظالم وکان اذا ما یسلل السیف یضرب ابو لیلی ابن ظالم اس کی طرف اٹھا اور وہ جب تلوار سونت لیتا ہے تو مار دیتا ہے۔ سیبویہ نے کہا : کعب بن زہیر نے جو کہا وہ عمدہ ہے : واذا ما تشاء تبعث منھا مغرب الشمس ناشطاً مذعوراً اور جب تو اس سے سورج کے غروب ہونے کے وقت چلنا طلب کرے گا تو وہ اس وقت بھی ایسی تیزی سے اٹھے گی جیسے کوئی جانور شکاری سے ڈرا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی عمدہ یہ کہ اذا کے ساتھ جزم نہ دی جائے جیسے اس بیت میں جزم نہیں دی گئی۔ مبرد سے حکایات کیا گیا ہے کہ خرجت فاذاً زید میں اذا ظرف مکان ہے کیونکہ اپنے ضمن میں جثۃ کو لئے ہوئے ہے اور یہ مردود ہے کیونکہ اس کا معنی ہے خرجت فاذا حضور زید۔ یہ مصدر کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہوتا ہے جیسے دوسرے ظرف زمانہ تقاضا کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے۔ الیوم خمر وغداً امر۔ اس کا معنی ہے آج خمر کا وجود ہے اور کل امر کا وقوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قیل یہ قول سے مشتق ہے۔ اصل میں قول تھا۔ واؤ کے کسرہ کو قاف کی طرف نقل کیا گیا پھر واؤ یاء سے بدل گئ۔ اور قیل لھم میں لام کو لام میں ادغام کرنا بھی جائز ہے اور دو ساکنوں کو جمع کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یاء حرف مدد لین ہے۔ اخفش نے کہا : قیل قاف اور یاء کے ضمہ کے ساتھ بھی جائز ہے۔ کسائی نے کہا : قاف کو ضمہ کی بودے کر پڑھنا بھی جائز ہے تاکہ دلالت کرے کہ یہ مجہول کا صیغہ ہے۔ یہ قیس قبیلہ کی لغت ہے، اسی طرح جیء، غیض، حیل، سیق، سییء اور سیئت (1) میں ہے۔ ہشام نے حضرت ابن عباس، رویس نے یعقوب سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ان الفاظ میں سیی اور سیئت کو نافع نے خاص طور پر اشمام سے پڑھا ہے۔ ابن ذکوان نے حیل اور سیق میں بھی اشمام کیا ہے اور باقی قراء نے تمام میں کسرہ دیا ہے۔ ہذیل، بنود بیر جو اسد اور بنی فقعس سے تھے وہ اسے قول واؤ کے سکون کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : لا تفسدوا اس میں لاء نہی ہے، فساد، صلاح کی ضد ہے، اور فساد کی حقیقت، سیدھے راستہ سے عدل کر کے اس کی ضد کی طرف جانا ہے فسد الشیء یفسد فساداً وفسوداً وھو فاسد وفسید آیت میں اس کا معنی ہے زمین میں کفر کر کے اور اہل کفر سے محبت کر کے لوگوں کو محمد ﷺ پر ایمان لانے اور قرآن پر ایمان لانے میں جدائی کر کے فساد نہ کرو۔ بعض علماء نے فرمایا :۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے زمین میں فساد تھا، زمین پر ہر قسم کے گناہ کئے جاتے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی تو فساد اٹھ گیا اور زمین کی اصلاح ہوگئی۔ جب منافقین نے پھر گناہ شروع کئے تو اس کی اصلاح کے بعد فساد کیا جیسا دوسری آیت میں فرمایا : ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا (الاعراف :56) ( تم زمین میں فساد برپا نہ کرو اس کی اصلاح کے بعد) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فی الارض، الارض مؤنث اسم جنس ہے، اس کے واحد کا حق تھا کہ ارضۃ کہا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا۔ اس کی جمع ارضات آتی ہے کیونکہ عرب ایسی مؤنث کی جمع تاء کے ساتھ بناتے ہیں جس کے آخر میں تاء تانیث نہیں ہوتی مثلاً عرسات۔ پھر علماء کہتے ہیں ارضون۔ انہوں نے اس کی جمع واؤ، نون کے ساتھ بنائی ہے اور مؤنث کی جمع واؤ اور نون کے ساتھ نہیں آتی مگر یہ کہ وہ منقوص ہو جسے شبۃ اور ظبۃ، لیکن انہوں نے واؤ اور نون کو الف اور تا جو حذف ہیں ان کے عوض کو ذکر کیا ہے اور را کے فتحہ کو اپنی حالت پر رکھا ہے۔ اور کبھی ساکن کر کے پڑھا ہے۔ اس کی جمع اروض بھی بنائی جاتی ہے۔ ابو الخطاب نے کہا ہے کہ وہ کہتے ہیں ارض، اراض جیسا کہ اہل کے بارے میں کہا ہے : اھل، اھال، اور الاراضی بھی بغیر قیاس کے جمع آتی ہے۔ گویا انہوں نے آرضاً کی جمع بنائی۔ ہر وہ چیز جو نیچے ہو وہ ارض ہے ارض اریضہ یعنی پاکیزہ زمین جس کی اراضت ظاہر ہے۔ قد ارضت کا معنی ہے، پاکیزہ، عمدہ ہے۔ ابو عمرو نے کہا : نزلنا ارضاً اریضۃ یعنی ہم ایسی زمین میں اترے جو آنکھوں کو اچھی لگنے والی تھی۔ کہا جاتا ہے : لا ارض لک۔ جیسے کہا جاتا ہے : لا ام لک۔ الارض جانور کے نیچے والے پاؤں کو کہتے ہیں۔ حمید اپنے گھوڑے کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ولم یقلب ارضھا البیطار ولا لحبلیہ بھا حبار الارض سے مراد نفضۃ (جھاڑنا ہے) اور الرعدۃ (کپکبی) کو بھی کہتے ہیں۔ حماد بن سلمہ نے قتادہ سے انہوں نے عبد اللہ بن حارث سے روایت کیا ہے فرمایا : بصرہ میں زمین پر زلزلہ آیا تو حضرت ابن عباس نے کہا : ازلزلت الارض ام بی ارض۔ کیا زمین لرز رہی ہے یا مجھ کو کپکپی طاری ہے۔ ذوالرمہ نے شکاری کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا : اذا تو جس رکزا من سنابکھا او کان صاحب ارض او بہ الموم جب اس کے پاؤں کی مدہم سے آواز سنتا ہے یا اسے لرزہ ہے یا اسے برسام کی بیماری ہے۔ الارض کا معنی الرکام بھی ہے قد آوضہ اللہ ایراضاً یعنی اسے زکام لگا دیا۔ فسیل مستأرض دودیۃ مستأرضۃ (راء کے کسرہ کے ساتھ) جس کی زمین میں جڑ ہو۔ اور جب کھجور تنے پر اگ آئے تو اسے راکب کہتے ہیں۔ الاراض اون اور بالوں کی بنی ہوئی بڑی قالین۔ رجل اریض، متواضع اور نیکی کرنے والا شخص۔ اصمعی نے کہا : کہا جاتا ہے : ھو آرضھم ان یفعل ذلک۔ یعنی اس نے انہیں پیدا کیا۔ شیء عریض۔ اریض اس کی پیروی کرنے والا۔ بعض نے اس کو علیحدہ ذکر کیا کہ جدی اریض یعنی موٹا دنبہ یا موٹا تحفہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نحن اس کی اصل نحن ہے۔ حاء کی پیش نون کو دی گئی اور حاء کو ساکن کردیا۔ یہ ہشام بن معاویہ نحوی کا قول ہے، الزجاج نے کہا : نحن جمع کے لئے ہے اور جمع کی علامت میں سے واؤ ہے اور ضمہ واو کی جنس سے ہے، جب نحن کو حرکت دینے کی طرف مجبور ہوئے تو انہوں نے ایسی حرکت دی جو جماعت کے لئے تھی۔ زجاج نے کہا : اسی وجہ سے واؤ جمع کو اس ارشاد میں ضمہ دیا ہے : اولئک الذین اشتروا الضللۃ (البقرہ : 16) ( یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو خریدا) محمد بن یزید نے کہا نحن، قبل اور بعد کی مثل ہے کیونکہ یہ دو یا زائد کی خبر دینے کے لئے ہے۔ انا، واحد کے لئے ہے نحن تثنیہ اور جمع کے لئے ہے۔ کبھی متکلم اس کے ساتھ اپنے متعلق خبر دیتا ہے جیسے نحن قمنا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نحن قسمنا بینھم معیشتھم (الزخرف : 32) ہم نے خود تقسیم کیا ہے ان کے درمیان سامان زیست کو۔ اور مؤنث اس صورت میں مذکر کے قائم مقام ہوتی ہے جبکہ وہ کلام کرنے والی ہو۔ عورت کہتی ہے : قمت وذھبت، قمنا وذھبنا۔ وانا فعلت ذاک و نحن فعلنا یہ عربوں کا کلام ہے۔ خوب جان لو ! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مصلحون یہ اصلح سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ الصلاح فساد کی ضد ہے، صلح لام کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ دونوں لغتیں ہیں۔ یہ ابن سکیت نے کہا ہے۔ صلوح، صاد کے ضمہ کے ساتھ صلح (بضم اللام) کا مصدر ہے۔ شاعر نے کہا : فکیف باطراقی اذا ما شتمتنی وما بعد شتم الوالدین صلوح جب تم مجھے گالی دو گے تو میں کیسے سر جھکاؤں گا، والدین کو گالی دینے کے بعد صلح نہیں ہوتی۔ اور صلاح مکہ کے اسماء میں سے ہے، الصلح صاد کے کسرہ کے ساتھ نہر کو کہتے ہیں۔ یہ انہوں نے اپنے گمان کے مطابق کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک ان کا فساد کرنا، اصلاح تھا۔ یعنی ہمارا کفار کی مدد کرنا اس لئے تھا کہ ہم ان کے اور مومنین کے درمیان اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ یہ ابن عباس وغیرہ کا قول ہے۔
Top