Al-Qurtubi - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور اگر ہم چاہیں تو جو (کتاب) ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اسے (دلوں سے) محو کردیں پھر تم اس کے لئے ہمارے مقابلے میں کسی کو مددگار نہ پاؤ۔
آیت نمبر 86 تا 87 قولہ تعالیٰ : ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک مراد قرآن کریم ہے، یعنی جس طرح ہم اسے نازل کرنے پر قادر ہیں اسی طرح ہم اسے سلب کرنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں یہاں تک کہ مخلوق اسے بھول جائے اور یہ آیت اس ارشاد کے ساتھ متصل ہے : وما اوتیتم۔۔۔ قلیلا۔ یعنی اگر میں چاہوں کہ میں اس قلیل اور تھوڑے علم کو سلب کرلوں تو میں اس پر قادر ہوں۔ ثم لا تجد لک بہ علینا وکیلا پھر آپ کوئی ایسا مددگار نہ پاتے جو اسے آپ پر لوٹا سکتا۔ الا رحمۃ من ربک لیکن ہم اسے نہیں چاہیں گے (اور یہ) آپ کے رب کی رحمت ہے ؛ پس یہ استثناء پہلے سے نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مگر یہ کہ آپ کا رب آپ پر رحم فرمائے اور وہ اسے سلب نہ کرے۔ ان فضلہ کان علیک کبیرا (یقیناً اس کا فضل و کرم آپ پر بہت بڑا ہے) جبکہ اس نے آپ کو اولاد آدم کا سردار بنایا ہے، اور آپ کو مقام محمود اور یہ کتاب عزیز عطا فرمائی ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا : اپنے دین میں سے جو چیز تم سب سے پہلے گم کرو گے وہ امانت ہے، اور آخر میں جو چیز تم سے مفقود ہوگی وہ تمام ہے، اور یہ قرآن گویا تم سے چھین لیا جائے گا، تم ایک دن صبح کرو گے اور تمہارے پاس اس سے کوئی شے نہ ہوگی۔ تو ایک آدمی نے کہا : اے ابا عبد الرحمن ! یہ کیسے ہوگا ؟ حالانکہ ہم نے اسے اپنے دلوں میں راسخ کر رکھا ہے اور ہم نے اسے اپنے مصاحف میں لکھ رکھا ہے، ہم اپنے بیٹوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو اس کی تعلیم دیں گے اور یہ یوم قیامت تک سلسلہ جاری رہے گا، تو آپ نے فرمایا : ایک رات میں وہ کوئی ایسی چیز بھیجے گا جس کے ساتھ وہ مصاحف اور دلوں میں جو کچھ ہے وہ سب لے جائے گا، اور لوگ چوپاؤں کی مثل صبح کریں گے۔ پھر حضرت عبد اللہ ؓ نے یہ آیت پڑھی : ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک الآیہ۔ اس کو ابوبکر بن ابی شیبہ نے اس معنی کے ساتھ بیان کیا ہے، انہوں نے کہا : ہمیں ابو الاحوص نے عبد العزیز بن رفیع سے انہوں نے شداد بن معقل سے بیان کیا کہ انہوں نے بیان کیا، حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے کہا : بیشک یہ قرآن کریم جو تمہارے درمیان ہے عنقریب تم سے چھین لیا جائے گا، سلب کرلیا جائے گا۔ انہوں (شداد بن معقل) نے بیان کیا : میں نے کہا : یہ ہم سے کیسے چھین لیا جائے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمارے دلوں میں راسخ کر رکھا ہے اور ہم نے اسے اپنے مصاحف میں ثابت اور محفوظ کر رکھا ہےَ تو انہوں نے فرمایا : وہ ایک ہی رات میں اس پر کوئی ایسی چیز چلائے گا اور جو کچھ دلوں میں ہے وہ اسے چھین لے گا، سلب کرلے گا، اور جو کچھ مصاحف میں ہے اسے مٹا دے گا اور لوگ اس حال میں صبح کریں گے کہ وہ اس سے خالی اور محروم ہوچکے ہوں گے، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ولئن شینا لنذھبن بالذی اوحینا الیک اور یہ اسناد صحیح ہے۔ اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ قیامت نہیں ہوگی یہاں تک کہ قرآن کریم ادھر لوٹ جائے گا جہاں سے نازل ہوا، اور اس کی بھنبھناہٹ کی طرح ہوگی، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : تجھے کیا ہوا ہے ؟ تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھ سے نکلا تھا اور تیری ہی طرف لوٹ آیا ہوں، میں تلاوت کیا جاتا رہا لیکن میرے مطابق عمل نہ کیا گیا، مجھے پڑھا جاتا رہا اور میرے ساتھ عمل نہ کیا گیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : تحقیق اس معنی میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص اور حضرت حذیفہ ؓ سے مرفوع حدیث مروی ہے، حضرت حذیفہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اسلام مٹ جائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار مٹ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ معلوم نہیں ہوگا کہ روزہ کیا ہے اور نہ ہی نماز، قربانی اور صدقہ وغیرہ کے بارے کوئی علم ہوگا پس ایک ہی رات میں کتاب اللہ پر کوئی چیز چلائی جائے گی تو زمین میں کوئی آیت باقی نہ رہے گی اور لوگوں کے کچھ گروہ باقی رہ جائیں گے، بوڑھے مرد اور عورتیں کہیں گے، ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا۔ اور وہ یہ نہیں جانتے تھے نماز کیا ہے اور نہ وہ روزے، قربانی اور صدقہ وغیرہ کے بارے جانتے تھے “۔ صلہ (بن زفر عبسی) نے انہیں کہا ! انہیں لا الہ الا اللہ کوئی فائدہ نہیں دے گا ! درآنحالیکہ وہ یہ نہیں جانتے ہوں گے نماز کیا ہے اور روزہ، قربانی اور صدقہ وغیرہ کے بارے بھی نہیں جانتے ہوں گے، تو حضرت حذیفہ ؓ نے ان سے منہ پھیرلیا، پھر انہوں نے یہی بات تین بار دہرائی، اور حضرت حذیفہ ؓ ہر بار اس سے اعراض کرتے رہے۔ پھر آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے صلہ ! یہ انہیں آتش جہنم سے نجات دلا دے گا اور آپ نے یہی جملہ (تنحیھم من النار) تین بار فرمایا۔ اسے ابن ماجہ نے سنن میں نقل کیا ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان فرمایا، حضور نبی مکرم ﷺ باہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ اپنے سر مبارک کو درد کی وجہ سے لپیٹے ہوئے تھے، پس آپ ﷺ مسکرائے اور منبر پر تشریف لے گئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا : ” اے لوگو ! کیا یہ تحریریں اور کتابیں جو تم لکھ رہے ہو کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب کے سوا کوئی کتاب ہےَ قریب ہے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی وجہ سے ناراض ہوجائے پس وہ کوئی ورق (کاغذ) نہیں چھوڑے گا اور نہ کوئی دل مگر اس سے سلب کرلے گا “۔ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ تو اس وقت مومن مرد اور مومن عورتوں کا حال کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ جس کے لئے اس کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ فرمائے گا تو اس کے دل میں لا الہ الا اللہ باقی رکھے گا “۔ اسے ثعلبی اور غزنوی وغیرہما نے تفسیر میں ذکر کیا ہے۔
Top