Al-Qurtubi - Al-Israa : 84
قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ١ؕ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : ہر ایک يَّعْمَلُ : کام کرتا ہے پر عَلٰي : پر شَاكِلَتِهٖ : اپنا طریقہ فَرَبُّكُمْ : سو تمہارا پروردگار اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ هُوَ : کہ وہ کون اَهْدٰى : زیادہ صحیح سَبِيْلًا : راستہ
کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے راستے پر ہے۔
آیت نمبر 84 قولہ تعالیٰ : قل کل یعمل علی شاکلتہ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : ہر شخص اپنی جہت پر عمل پیرا ہے، اور یہ ضحاک نے بھی کہا ہے۔ اور حضرت مجاہد نے کہا ہے : ہر شخص اپنی طبیعت پر عمل پیرا ہے۔ اور آپ ہی سے یہ بھی ہے کہ ہر شخص علیحدہ طور پر عمل پیرا ہے۔ ابن زید نے کہا ہے : ہر شخص اپنے دین پر عمل پیدا ہے۔ حسن اور قتادہ نے کہا ہے : ہر شخص اپنی نیت پر عمل پیرا ہے۔ مقاتل نے کہا ہے : ہر شخص اپنی فطرت پر عمل پیرا ہے۔ فراء نے کہا ہے : ہر شخص اپنے اس طریقہ اور مذہب پر عمل پیرا ہے جس پر اس کی فطرت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : آپ فرما دیجئے ہر شخص اس پر عمل پیرا ہے جو اس کے نزدیک اس کے اعتقاد کے زیادہ مشابہ اور صواب و صحیح کے زیادہ قریب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ الشکل سے ماخوذ ہے ؛ کہا جاتا ہے : لست علی شکلی ولا شاکلتی (تو میری شکل اور مزاج پر نہیں ہے) ۔ شاعر نے کہا ہے : کل امرئ یشبھہ فعلہ ما یفعل المرء فھو أھلہ پس شکل سے مراد مثل، نظیر، اور ضرب (قسم) ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واخر من شکلہ ازواج۔ (ص) (اور اس کے علاوہ اس کی مانند طرح طرح کا عذاب) ۔ اور الشکل (شین کے کسرہ کے ساتھ) اس کا معنی ہیئت ہے۔ کہا جاتا ہے : جاریۃ حسنۃ الشکل (ایسی لونڈی جو ہیئت اور شکل کے اعتبار سے خوبصورت ہو) ۔ یہ تمام اقوال باہم متقارب ہیں۔ اور اس کا معنی ہے کہ ہر کوئی اس کے مطابق عمل کرتا ہے جس پر اس کی وہ اصل اور اخلاق مترتب ہوتے ہیں جن سے وہ مرکب ہے، اور یہ کافر کی مذمت اور مومن کی مدح ہے۔ یہ آیت اور اس سے پہلے والی آیت دونوں ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں ؛ اسے مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ فربکم اعلم بمن ھو اھدی سبیلا یعنی مومن اور کافر اور جو کچھ ان میں سے ہر ایک سے حاصل ہوتا ہے (اس کے بارے تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ سیدھی راہ پر گامزن ہے) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اھدی سبیلا یعنی کون زیادہ تیزی سے قبول ہونے والا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کون دین کے اعتبار سے زیادہ حسین ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے قرآن کریم کے بارے میں باہم مذاکرہ اور گفتگو کی، پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا : میں نے اول سے لے کر آخر تک قرآن کریم پڑھا اور میں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے زیادہ امید افزا اور احسن قول کوئی نہیں دیکھا : قل کل یعمل علی شاکلتہ کیونکہ بندے کی فطرت نہیں ہوتی مگر عصیان اور گناہ اور رب کریم کی فطرت نہیں مگر غفران اور بخشش۔ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا : میں نے اول سے لے کر آخر تک قرآن کریم پڑھا پس میں نے اس میں اس ارشاد باری تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی امید افزا اور احسن قول نہیں دیکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حم۔ تنزیل۔۔۔۔۔۔۔ ذی الطول (غافر) (حا۔ میم اتاری گئی ہے یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو زبردست ہے سب کچھ جاننے والا ہے، گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا، سخت سزا دینے والا، فضل و کرم فرمانے والا ہے) ۔ اس میں گناہوں کی مغفرت کو توبہ کی قبولیت پر مقدم کیا گیا ہے، اور اس میں اشارہ مومنوں کے لئے ہے۔ اور حضرت عثمان بن عفان ؓ نے فرمایا : میں نے اول سے لے کر آخر تک سارا قرآن کریم پڑھا اور میں نے اس آیت سے زیادہ حسین اور امید افزا کوئی آیت نہیں دیکھی : نبئ عبادی انی انا الغفور الرحیم۔ (الحجر) (بتا دو میرے بندوں کو کہ میں بلاشبہ بہت بخشنے والا از حد رحم کرنے والا ہوں) اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا : میں نے سارا قرآن اول سے لے کر آخر تک پڑھا اور میں نے اس آیت سے زیادہ کوئی حسین اور امید افزا آیت نہیں دیکھی : قل یعبادی۔۔۔۔۔ انہ ھو الغفور الرحیم۔ (الزمر) (آپ فرمائیے : اے میرے بندو ! جنہوں نے زیادتیاں کی ہیں اپنے نفسوں پر، مایوس نہ ہوجاؤ اللہ کی رحمت سے، یقیناً اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے سارے گناہوں کو، بلاشبہ وہی بہت بخشنے والا، ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : میں نے اول سے لے کر آخر تک قرآن کریم پڑھا اور میں نے اس قول باری تعالیٰ سے زیادہ حسین اور امید افزا کوئی آیت نہیں دیکھی : الذین امنوا ولم یلبسوا۔۔۔۔۔ مھتدون۔ (الانعام) (وہ جو ایمان لائے اور نہ ملایا انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے انہیں کے لئے ہی امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں) ۔
Top