Al-Qurtubi - Al-Israa : 82
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
وَ : اور نُنَزِّلُ : ہم نازل کرتے ہیں مِنَ : سے الْقُرْاٰنِ : قرآن مَا : جو هُوَ شِفَآءٌ : وہ شفا وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں زیادہ ہوتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا : سوائے خَسَارًا : گھاٹا
اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔
آیت نمبر 82 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : وننزل جمہور نے اسے نون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور حضرت مجاہد نے وینزل یا اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اور اسے مروزی نے حفص سے روایت کیا ہے۔ اور من ابتدا غایت کیلئے ہے، اور صحیح یہ ہے کہ یہ بیان جنس کیلئے ہو، گویا کہ یہ فرمایا : وننزل ما فیہ شفاء من القرآن (اور ہم قرآن میں وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے) ۔ اور حدیث میں ہے : ” جس نے قرآن کریم سے شفا طلب نہ کی تو اللہ تعالیٰ اسے شفا نہیں دے گا “۔ اور بعض متأولین نے من کے تبعیضیہ ہونے کا انکار کیا ہے، کیونکہ یہ اس سے محفوظ ہے کہ اسے یہ لازم آئے کہ اس کے بعض میں شفا نہیں ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اسے یہ لازم نہیں آتا، بلکہ یہ صحیح ہے کہ من اس اعتبار سے تبعیض کے لئے ہو کہ اس کے نازل کرنے کو فقط بعض قرار دیا گیا ہے، تو گویا یہ فرمایا : وننزل من القرآن شیئا شفاء (اور ہم قرآن میں سے کچھ چیزیں باعث شفا نازل کرتے ہیں) ، نہ کہ اس تمام میں شفا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: علمائ نے اس کے شفا ہونے میں دو مختلف قول بیان کئے ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ دلوں کے لئے ان سے جہالت دور کرنے، شک اور ریب کا ازالہ کرنے، اور معجزات اور وہ امور جو اللہ تعالیٰ پر دلالت کرتے ہیں انہیں سمجھنے کے لئے جہالت کے مرض سے دل کے پردے کھولنے کے اعتبار سے باعث شفا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ظاہری بیماریوں کے لئے دم اور تعوذ کے سبب باعث شفا ہے۔ تحقیق ائمہ نے روایت بیان کی ہے اور یہ الفاظ دار قطنی کے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تیس سواروں کے ایک سریہ میں بھیجا آپ نے بیان کیا : پس ہم عرب کی ایک قوم کے پاس اترے اور ہم نے ان سے پوچھا (کیا) وہ ہماری مہمان نوازی کریں گے ؟ تو انہوں نے انکار کردیا، فرمایا : پھر قبیلے کے سردار کو ڈس لیا گیا، پس وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے : تم میں کوئی ہے جو بچھو کا دم کرتا ہو ؟ اور ابن قتہ کی روایت میں ہے : بیشک بادشاہ مر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا : میں نے کہا : ہاں میں ہوں، لیکن میں دم نہیں کروں گا یہاں تک کہ تم ہمیں کچھ دو ، تو انہوں نے کہا : ہم تمہیں تیس بکریاں دیں گے۔ آپ نے فرمایا : پس میں نے اس پر سات مرتبہ الحمدللہ رب العالمین پڑھ کر دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ اور سلیمان بن قتہ عن ابی سعید ؓ کی روایت میں ہے : پس اسے افاقہ ہوگیا اور صحت یاب ہوگیا۔ تو اس نے ہماری طرف ضیافت کا کھانا بھی بھیجا اور بکریاں بھی ہماری طرف بھیجیں، پس ہم نے کھانا کھالیا اور میرے ساتھیوں نے بکریوں میں سے کوئی کھانے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوگئے اور آپ کو میں نے ساری خبر گوش گزار کردی تو آپ نے فرمایا : ” تجھے کس نے بتایا کہ یہ دم ہے “۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ ایسی شے ہے جو میرے دل میں القا کردی گئی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : کلوا وأطعمونا من الغنم (تم خود بھی کھاؤ اور بکریوں میں سے ہمیں بھی کھلاؤ) ۔ انہوں نے اسے کتاب السنن میں نقل کیا ہے۔ اور (کتاب المدیح) میں سری بن یحییٰ کی حدیث سے ذکر کیا ہے انہوں نے کہا : مجھے معتمر بن سلیمان نے لیث بن ابی سلیم سے، انہوں نے حسن سے، اور انہوں نے ابو امامہ ؓ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے حکم سے برص، جنون، جذام، پیٹ، چلنے، سل (پھیپھڑے کی بیماری، لاغری) ، بخار اور سانس کی بیماری سے نفع اور فائدہ ہوتا ہے کہ تو زعفران یا سرخ مٹی (گیرو) کے ساتھ یہ کلمات لکھے أعوذ بکلمات اللہ التامۃ وأسمائہ کلھا عامۃ من شر السامۃ والعامۃ ومن شر العین الامۃ ومن شر حاسد اذا حسد ومن أبی فروۃ وما ولد۔ اسی طرح کہا، اور من شر أبی قترہ نہیں کہا۔ العین اللامۃ سے مراد نظر بد کا لگنا ہے۔ تو کہتا ہے : میں اس کی پناہ مانگتا ہوں ہر زہریلے کیڑے سے اور نظر بد سے۔ اور رہا آپ کا یہ قول : اعیذہ من حادثات اللمۃ تو کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد حوادثات زمانہ ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد شدت اور سختی ہے۔ اور السامۃ کا معنی الخاصہ ہے۔ کہا جاتا ہے : کیف السامۃ والعامۃ (خاص و عام کیسے ہیں) اور السامۃ سے مراد زہر بھی ہے۔ اور من فروۃ وما ولد۔ اور فرمایا : تینتیس ملائکہ اپنے رب کریم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی : ہماری زمین میں ردر اور بیماری ہے تو رب کریم نے فرمایا : اپنی زمین سے کچھ مٹی لے لو اور اپنی حاضر ہوئے اور عرض کی : ہماری زمین میں درد اور بیماری ہے تو رب کریم نے فرمایا : اپنی زمین سے کچھ مٹی لے لو اور اپنی پیشانیوں پر مل لو۔ یا فرمایا : تمہاری پیشانیوں کے لئے محمد ﷺ کا دم ہے، وہ کامیاب نہیں ہوگا جس نے اسے ہمیشہ چھپائے رکھا یا اس پر کوئی ہدیہ وغیرہ لیا “۔ پھر فاتحۃ الکتاب (الحمد شریف) سورة البقرہ کی پہلی چار آیات، اور وہ آیت جس میں ہواؤں کے چلنے کا ذکر ہے، آیۃ الکرسی اور اس کے بعد والی دو آیتیں، سورة البقرہ کی آخری آیات للہ ما فی السموت وما فی الارض سے لے کر اس کے آخر تک، سورة آل عمران کی پہلی دس آیتیں اور اس کے آخر سے دس آیتیں، سورة النساء کی پہلی آیت، سورة المائدہ کی پہلی آیت، سورة الانعام کی پہلی آیت، سورة الاعراف کی پہلی آیت، اور وہ آیت جو سورة الاعراف میں ہے۔ ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض آیت کے آخر تک ؛ اور وہ آیت جو سورة یونس میں ہے اس جگہ سے قال موسیٰ ما جئتم۔۔۔۔۔۔ عمل المفسدین۔ اور وہ آیت جو سورة طہ میں ہے۔ والق ما فی۔۔۔۔۔۔ الساحر حیث اتی۔ اور سورة الصافات کی پہلی دس آیات، اور قل ھو اللہ احد۔ اور معوذ تین لکھیں۔ یہ پاک صاف برتن میں لکھی جائیں گی پھر انہیں پاک پانی کے ساتھ تین بار دھویا جائے گا پھر اس سے تین بار دردوالی جگہ پر لگائے پھر اس سے اس طرح وضو کرے جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے اور وہ نماز کے لئے وضو کرنے سے پہلے اس سے وضو کرے۔ یہاں تک کہ اس سے وضو کرنے سے پہلے پاکیزگی اور طہارت کی حالت پر ہو پھر وہ اپنے سر، اپنے سینے اور اپنی پیٹھ پر پانی انڈیلے اور اس کے ساتھ استنجا نہ کرے پھر وہ دو رکعتیں (نفل نماز) پڑھے پھر اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا مانگے، اسی طرح تین دن تک عمل کرے، اتنی مقدار جتنا ہر روز لکھا جاسکتا ہو۔ اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں : ومن شرابی قترۃ وما ولد۔ اور فرمایا : ” پس اپنی پیشانیوں پر مل لو “۔ اور کوئی شک نہ کیا جائے۔ امام بخاری نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جس مرض میں آپ کا وصال ہوا اس میں معوذات پڑھ کر اپنے آپ پر پھونکتے تھے اور جب یہ ثقیل ہوگیا (یعنی بیماری بڑھ گئی) تو میں یہ پڑھ کر آپ پر پھونکتی تھی اور میں آپ کا اپنا دست مبارک برکت کے لئے پھیرتی تھی۔ پس میں (مراد عروہ بن زبیر ہیں) نے زہری سے پوچھا آپ کیسے پھونکتے تھے ؟ تو انہوں نے بیان کیا : آپ اپنے ہاتھوں پر پھونک مارتے تھے پھر انہیں اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ اور مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب تکلیف ہوتی تو آپ اپنے اوپر معوذ تین پڑھتے اور تھوکتے یا پھونک مارتے۔ ابوبکر بن الانباری نے کہا ہے : علمائے لغت نے کہا ہے کہ نفث سے مراد ایسی پھونک مارنا ہے جس کے ساتھ تھوک نہ ہو۔ اور تفل کا معنی ایسی پھونک مارنا ہے جس کے ساتھ تھوک بھی ہو۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : فإن یبرا فلم ألفث علیہ وإن یفقد فحق لہ الفقود اور ذوالرمہ نے کہا ہے : ومن جوف ماء عرمض الحول فوقہ متی یحس منہ مائح القوم یتفل اس سے مراد تھوک کے ساتھ پھونک مارنا ہے۔ اور النفث کے بارے علماء نے جو کہا ہے اس کا بیان سورة الفلق میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 3: حضرت ابن مسعود ؓ نے روایت بیان کی ہے : یہ ایسی حدیث ہے جس کی مثل سے دین میں حجت پکڑنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کی ناقلین میں وہ ہیں جو معروف نہیں۔ اور اگر صحیح بھی ہو تو پھر بھی یا غلط ہے یا منسوخ ہے، کیونکہ حضور ﷺ نے سورة الفاتحہ کے بارے فرمایا : ” تجھے کس نے بتایا کہ یہ دم ہے ؟ “ اور جب معوذ تین کے ساتھ دم کرنا جائز ہے اور یہ دونوں قرآن کریم کی سورتیں ہیں تو پھر سارا قرآن کریم جواز میں ان دونوں کی مثل ہے کیونکہ سارے کا سارا قرآن ہے۔ اور آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” میری امت کی شفا تین چیزوں میں ہے، کتاب اللہ کی آیت میں یا شہد چاٹنے میں یا اچھی طرح پچھ لگوانے میں “۔ اور رجا الغنوی نے کہا ہے : جس نے قرآن کے ساتھ شفا طلب نہ کی تو اس کیلئے شفا نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 4: علماء نے نشرہ کے بارے اختلاف کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے یا قرآن کریم میں سے کوئی شے لکھے اسے پانی کے ساتھ دھوئے پھر اسے مریض پر ملے یا اسے پلائے، تو حضرت سعید بن مسیب نے اس جائز قرار دیا ہے۔ آپ کو کہا گیا : وہ آدمی جس اپنی بیوی سے لے لیا جاتا ہے (یعنی اس پر کوئی جادو، منتر کردیا جاتا ہے) تو کیا وہ اس سے کھولا جائے گا اور اسے کوئی دم تعویذ کیا جائے گا ؟ تو آپ نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں، اور جو چیز نفع دیتی ہے اسے اس سے منع نہ کیا جائے۔ اور حضرت مجاہد کی یہ رائے نہیں کہ تو قرآن کریم کی آیات لکھے پھر انہیں دھوئے اور پھر اسے گھبراہٹ والے آدمی کو پلایا جائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ایک برتن میں پانی پر معوذ تین پڑھتی تھیں پھر آپ حکم دیتی تھیں کہ اسے مریض پر انڈیل دیا جائے۔ مازری ابو عبد اللہ نے کہا ہے : اہل تعزیم (دم کرنے والے) کے نزدیک نشرہ (دم، تعویذ) امر معروف ہے، اور اسے یہ نام دیا گیا ہے، کیونکہ یہ اپنے صاحب کی گرہ کھول دیتا ہے (بیماری ختم کردیتا ہے) ۔ حسن اور ابراہیم نخعی نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت نخعی نے کہا ہے : مجھے خوف ہے کہ اسے کوئی مصیبت اور بلا آپہنچے، گویا کہ آپ اس طرف گئے ہیں کہ یہ وہ ہے جس کے ساتھ قرآن کو مٹایا گیا ہے اور اسکا اپنے پیچھے کسی آزمائش اور مصیبت اور بلا آپہنچے، گویا کہ آپ اس طرف گئے ہیں کہ یہ وہ جس کے ساتھ قرآن کو مٹایا گیا ہے اور اس کا اپنے پیچھے کسی آزمائش اور مصیبت تک پہنچانا اس سے زیادہ قریب ہے کہ یہ شفا کا فائدہ دے۔ اور حسن نے کہا ہے : میں نے حضرت انس ؓ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا ہے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اور ابو داؤد نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کی حدیث روایت کی ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ سے نشرہ کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ” یہ شیطان کے عمل میں سے ہے “۔ علامہ ابن عبد البر نے کہا ہے : یہ آثار لینہ ہیں اور ان کے لئے کئی وجوہ کا احتمال ہو سکتا ہے۔ تحقیق کہا گیا ہے : بیشک یہ اس معنی پر محمول ہیں کہ جب یہ اس سے باہر ہو جو کچھ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں سے ہے، اور معروف علاج سے باہر ہو۔ اور نشرہ طب کی جنس سے ہے پس یہ ایک چیز کا دھو ون ہے جو اس کیلئے بہتر ہے، پس یہ رسول اللہ ﷺ کے وضو کی طرح ہوا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جب اس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو اور تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ (دم) کرے “۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : تحقیق ہم نے نشرہ کے بارے مرفوع نص ذکر کی ہے اور یہ کہ وہ نہیں ہوتا مگر کتاب اللہ سے پس چاہئے کہ اس پر اعتماد کیا جائے۔ مسئلہ نمبر 5: امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس تحریر کو مریضوں کے گلے میں تبرک کے لئے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے اسماء لکھے ہوں جبکہ اسے لٹکانے والا اس کے لٹکانے کے ساتھ نظر کا دفاع کرنے سے نڈھال اور عاجز نہ ہو اور یہی اس کا معنی ہے قبل ان ینزل بہ شئ من العین (یعنی نظر سے کوئی تکلیف اور مصیبت آنے سے پہلے) ۔ اور اسی قول پر اہل علم کی ایک جماعت بھی ہے، ان کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ صحت مند جانروں یا افسانوں کے گلوں میں نظر لگنے کے خوف سے کوئی چیز لٹکائی جائے، اور ہر وہ چیز جو مصیبت آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی کتاب میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے شفا اور کشادگی کی امید رکھتے ہوئے لٹکائی جاتی ہے، تو وہ اس مباح دم کی مثل ہے نظر وغیرہ کی صورت میں جس کا مباح ہونا سنت سے ثابت ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب تم میں سے کسی کو حالت نیند میں خوف آئے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ کہے : أعوذ بکلمات اللہ التامۃ من غضبہ وسؤعقابہ ومن شر الشیاطین وأن یحضرون۔ اور حضرت عبد اللہ ؓ اپنے ان بچوں کو یہ سکھاتے تھے جو ادراک رکھتے تھے، اور جو ادراک نہ رکھتے تھے آپ ان کلمات کو لکھتے اور ان کے گلے میں لٹکا دیتے۔ اور اگر کہا جائے : تحقیق روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کوئی شے لٹکائی تو اسے اسی کے سپرد کردیا جائے گا “۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے اپنی ام ولد کے (گلے) میں ایک بندھا ہوا تعویز دیکھا تو آپ نے اسے انتہائی شدت اور سختی کے ساتھ کھینچا اور اسے توڑ دیا اور فرمایا : بیشک آل ابن مسعود اس شرک سے مستغنی ہے، پھر فرمایا : بیشک تعویذ، دم اور الثولہ یہ سب شرک ہیں۔ پوچھا گیا : یہ لاتولہ کیا ہے ؟ فرمایا : وہ جس کے ساتھ عورت اپنے خاوند کی محبوب ہوجائے۔ اور عقبہ بن عامر جہنی سے مروی ہے انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جس نے تعویذ لٹکایا تو اللہ تعالیٰ اس کو مکمل نہ کرے گا اور جس نے ودعہ (منکا) لٹکایا تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اطمینان عطا نہیں کرے گا “ خلیل بن احمد نے کہا : کلام عرب میں تمیمہ سے مراد قلادہ ہے، اور اہل علم کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ نظر یا مصائب کی انواع میں سے کسی کے خوف سے قلائد میں سے جو گلوں میں لٹکایا جائے تو گویا حدیث میں معنی یہ ہوا کہ جو کوئی اس تکلیف کے ڈر سے گلے میں لٹکاتا ہے جس کے نازل ہونے کی امید ہو یا یہ کہ وہ مصیبت نہ آئے اس کے آنے سے پہلے لٹکاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی صحت و عافیت کو مکمل نہ کرے۔ اور جس نے کوئی منکا وغیرہ لٹکایا اور یہ معنی میں اس کی مثل ہے پس اللہ تعالیٰ اسے اطمینان نہ دے، یعنی اللہ تعالیٰ اسے برکت عطا نہ کریگا جس میں اس کے لئے عافیت ہو۔ واللہ اعلم۔ اور یہ سب اس سے ڈرانا ہے جو اہل جاہلیت تعویذات اور قلائد لٹکانے کا عمل کرتے تھے، اور یہ گمان رکھتے تھے کہ یہ انہیں بچاتے ہیں اور ان سے آزمائش اور مصائب کو پھیر دیتے ہیں، حالانکہ انہیں اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں پھیر سکتا، وہی عافیت عطا فرمانے والا ہے اور وہی مبتلا کرنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس عمل سے منع فرمایا جو دور جاہلیت میں وہ کرتے تھے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے جو ارشاد فرمایا ہے کہ جو آزمائش اور مصیبت آنے کے بعد لٹکایا گیا وہ تمائم (تعویذات) میں سے نہیں ہے، حالانکہ بعض اہل علم نے ہر حال میں آزمائش آنے سے پہلے اور اس کے بعد تعویذ لٹکانے کو مکروہ قرار دیا ہے، ناپسند کیا ہے۔ پہلا قول اثر و نظر میں زیادہ صحیح ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور جب حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے اس میں یہ مراد لینا بھی جائز ہے کہ آپ نے قرآن کے سوا ان چیزوں کو لٹکانا ناپسند کیا جا قیافہ شناسوں اور کاہنوں سے لی گئی ہوں، کیونکہ قرآن سے شفا طلب کرنا چاہئے اسے لٹکایا گیا ہو یا نہ لٹکایا گیا ہو وہ شرک نہیں ہے، اور آپ ﷺ کا ارشاد : ” جس نے کوئی شے لٹکائی تو اسے اسی کے سپرد کردیا جائے گا “۔ تو جس نے قرآن گلے میں لٹکا لیا تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو والی بن جائے اور اور وہ اسے کسی غیر کے حوالے نہیں کرے گا، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رغبت رکھی گئی ہے اور قرآن سے شفا طلب کرنے میں اسی پر توکل کیا گیا ہے۔ حضرت ابن مسیب ؓ سے تعویذ کے متعلق پوچھا گیا : کیا یہ لٹکایا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جب وہ بانس کی لکڑی یا کپڑے کے ٹکڑے میں محفوظ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اور یہ اس بنا پر ہے کہ لکھا ہوا قرآن ہو۔ اور حضرت ضحاک سے مروی ہے کہ وہ کوئی حرج نہیں جانتے کہ آدمی کتاب اللہ میں سے کوئی شے گلے میں لٹکائے بشرطیکہ وہ جماع اور بول و براز کے وقت اسے اتار دے۔ ابو جعفر محمد بن علی نے بچوں کو تعویذ پہنانے کے بارے رخصت دی ہے۔ اور ابن سیرین قرآن میں سے کسی شے کے بارے کوئی حرج نہ دیکھتے کہ انسان اسے لٹکائے۔ مسئلہ نمبر 6: قولہ تعالیٰ : ورحمۃ للمؤمنین یعنی غمون اور تکلیفوں کو دور کرنے والی ہے، عیوب کو پاک کرنے والی ہے اور کناہوں کو مٹانے والی ہے اسکے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ثواب کی فضیلت بھی حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا تو اس کے لئے اس کے عوض ایک نیکی ہے اور وہ ایک نیکی دس نیکیوں کی مثل ہے میں نہیں کہتا کہ الم حرف ہے بلکہ الف علیحدہ حرف ہے، لام علیحدہ حرف ہے اور میم علیحدہ حرف ہے “۔ ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن، صحیح اور غریب ہے۔ اور یہ پہلے گزر چکی ہے۔ ولا یزید الظلمین الا خسارا اور یہ ظالموں کے لئے ان کی تکذیب اور جھٹلانے کی وجہ سے فقط خسارہ کو ہی بڑھاتا ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا ہے : جس نے بھی قرآن کے ساتھ مجالست اختیار کی تو وہ اس سے زیادتی یا کمی (نقصان) کے ساتھ ہی اٹھا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : وننزل من القران۔۔۔۔۔ للمؤمنین الآیہ اور اس آیت کی نظر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : قل ھو للذین۔۔۔۔۔۔ علیھم عمی (فصلت : 44) (آپ فرمائیے : یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لئے تو ہدایت اور شفا ہے۔ اور جو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں بہرہ پن ہے اور وہ ان پر (ہرحال میں) مشتبہ رہتا ہے) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرائض و احکام میں باعث شفا ہے، کیونکہ اس میں ان کی وضاحت اور بیان ہے۔
Top