Al-Qurtubi - Al-Israa : 74
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاۗۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَنْ : یہ کہ ثَبَّتْنٰكَ : ہم تمہیں ثابت قدم رکھتے لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ : البتہ تم جھکنے لگتے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف شَيْئًا : کچھ قَلِيْلًا : تھوڑا
اور اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے۔
آیت نمبر 74 تا 75 قولہ تعالیٰ : ولولا ان ثبتنٰک یعنی اگر ہم نے آپ کو حق پر ثابت قدم نہ رکھا ہوتا اور ہم نے آپ کو ان کی موافقت سے نہ بچایا ہوتا۔ لقد کدت ترکن الیھم تو آپ اس کی طرف مائل ہوجاتے۔ شیئا قلیلاً یعنی تھوڑا اور کچھ نہ کچھ۔ حضرت قتادہ نے کہا ہے : جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے یہ عرض کی : اللھم لاتکلنی إلی نفسی طرفۃ عین (اے اللہ ! تو مجھے آنکھ جھپکنے کی دیر بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر۔ ) اور کہا گیا ہے : خطاب کا ظاہر حضور نبی کریم ﷺ کے لئے ہے اور اس کا باطن ثقیف کے بارے خبر دے رہا ہے۔ اور اس کا معنی ہے : وان کا دوالیرکنونک، یعنی قریب تھا کہ وہ آپ کے بارے یہ خبر دیتے کہ آپ ان کے قول کی طرف مائل ہوگئے ہیں، پس ان کے فعل کو مجاز أاور وسعۃ آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جیسا کہ تو کسی آدمی کو کہتا ہے : کدت تقتل نفسک (قریب ہے تو اپنے کو قتل کردے) یعنی قریب ہے لوگ تجھے اس سبب سے قتل کردیں جو تو نے فعل کیا ہے، اسے مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی طرف سے ان کی طرف مائل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں بنا، بلکہ اس کا معنی ہے : اگر آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو آپ یقینا ان کی موافقت کی طرف مائل ہوجاتے، لیکن آپ پر مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل رہا دو آپ نے ایسا نہ کیا : یہ علامہ قشیری (رح) نے ذکر کیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : رسول اللہ ﷺ معصوم ہیں، لیکن یہ امت کی تعریف ہے تاکہ ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شرائع میں سے کسی شی میں مشرکین کی طرف مائل نہ ہو۔ اور قولہ تعالیٰ : اذًا لاذقنٰک ضعف الحیٰوۃ وضعف الممات یعنی (بفرض محال) اگر آپ مائل ہوتے تو آپ کو دنیا میں دنیا کے عذاب کی دو مثل اور آخرت میں موت کے عذاب کی دو مثل چکھاتے : یہ حضرت ابن عباس اور مجاہد ؓ وغیرہ نے کہا ہے۔ اور یہ انتہائی وعید ہے۔ اور جب بھی رتبہ اور درجہ اعلیٰ اور بلند ہو تو مخالفت کی صورت میں عذاب بھی اتنا بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یٰنسآء النبی من یات منکن بفاحشۃٍ مبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین (الاحزاب :30) (اے نبی کریم کی بیبیو ! جس کسی نے تم میں سے کھلی بیہودگی کی تو اس کے لئے عذاب کو دو چند کردیا جائے گا۔ ) اور ضعف الشی سے مراد دو مرتبہ اس کی مثل ہوتا ہے (دوگنا) ، اور کبھی ضعف کا معنی حصہ بھی ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لکل ضعف (الاعراف : 38) یعنی ہر ایک کے لئے ایک حصہ ہے، یہ معنی سورة الاعراف میں گزرچکا ہے۔
Top