Al-Qurtubi - Al-Israa : 72
وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا
وَمَنْ : اور جو كَانَ : رہا فِيْ هٰذِهٖٓ : اس (دنیا) میں اَعْمٰى : اندھا فَهُوَ : پس وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اَعْمٰى : اندھا وَاَضَلُّ : اور بہت بھٹکا ہوا سَبِيْلًا : راستہ
اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور (نجات کے) راستے سے بہت دور۔
آیت نمبر 72 قولہ تعالیٰ : ومن کان فی ھٰذہ اعمیٰ یعنی جو دنیا میں نظر وفکر کرنے سے اور حق کو دیکھنے سے اندھا بنا رہے گا۔ فھو فی الاٰخرۃ تو وہ آخرت کے معاملہ میں بھی اعمٰی اندھا ہوگا۔ اور حضرت عکرمہ (رح) نے کہا ہے : اہل یمن کی ایک جماعت حضرت ابن عباس ؓ کے پاس حاضر ہوئی اور انہوں نے اس آیت کے بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اس کے ماقبل کو پڑھو۔ ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر۔۔۔ تاقولہٖ ۔۔۔۔ تفضیلاً ۔ (الاسراء) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جو آدمی ان نعمتوں اور ان آیات اور نشانیوں کے بارے جو اس نے دیکھیں اندھا بنا رہا تو اس آخرت کے بارے میں جسے اس نے دیکھا نہیں اندھا ہی ہوگا اور بڑا گم کردہ راہ ہوگا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے جو ان نعمتوں سے اندھا رہا جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اس پر دنیا میں فرمائی ہیں تو وہ آخرت کی نعمتوں سے بھی اندھا ہوگا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے وہ آدمی جو اس دنیا میں جس میں مہلت دی گئی ہے اور اس کو وسعت دی گئی ہے اور اس کے ساتھ توبہ قبول کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ اندھا بنارہا تو وہ اس آخرت میں جس میں کوئی توبہ نہیں اندھا ہی ہوگا۔ اور حسن (رح) نے کہا ہے : جو آدمی اس دنیا میں کافر اور گمراہ رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا اور گم کردہ راہ ہوگا۔ اور یہ بھی قول ہے : وہ آدمی جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دلائل سے اندھا بنارہا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اندھا ہی اٹھائے گا : جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا : ونحشرہ یوم القیٰمۃ اعمٰی۔ الآیات۔ (طہٰ ) (اور ہم اسے اٹھائیں گے قیامت کے دن اندھا کرکے) اور مزید فرمایا : ونحشرھم یوم القیٰمۃ علیٰ وجوھھم عمیًا وبکمًا وصمًا ماوٰئھم جھنم (الاسراء :97) (اور ہم اٹھائیں گے انہیں قیامت کے روز منہ کے بل اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام اقوال میں فی الاٰخرۃ اعمٰی میں اس کا معنی ہے : سخت اندھا ہوگا، کیونکہ وہ دل کا اندھا ہونا ہے، اور آنکھ کے اندھے کے بارے میں اس کی مثل نہیں کہا جاسکتا۔ خلیل اور سیبویہ نے کہا ہے : کیونکہ وہ بھی خلقت نے اعتبار سے ہاتھ اور پاؤں کی طرح ہی ہے، لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا ما اعماہ جیسا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا ما ایداہ۔ اخفش نے کہا ہے : اس میں یہ نہیں کہا گیا کیونکہ اس کے حروف تین سے زائد ہیں۔ اور اس کی اصل اعمی ہے۔ اور بعض نحویوں نے ماأعماہ اور ماأعشاہ کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ اس کا فعل اس کا فعل عمی اور عشی ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : ایک بصری شیخ نے مجھے شام میں بتایا کہ اس کے عربوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : ما اسود شعرہ۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے : ما فی المعالی لکم ظل و لا ثمر و فی المخازی لکم أشباح أشیاخ أما الملوک فأ نت الیوم الأمھم لؤما و أبیضھم سربال طباخ اور ابوبکر، حمزہ، کسائی اور خلف نے دو حرفوں اعمی اور اعمی میں امالہ کہا ہے اور باقیوں نے ان میں فتح پڑھا ہے۔ اور ابوعمرو نے پہلے میں امالہ کیا ہے اور دوسرے کو فتح دیا ہے۔ واضل سبیلا یعنی وہ ہدایت کی طرف کوئی راہ نہیں پائے گا۔
Top