Al-Qurtubi - Al-Israa : 64
وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاسْتَفْزِزْ : اور پھسلا لے مَنِ : جو۔ جس اسْتَطَعْتَ : تیرا بس چلے مِنْهُمْ : ان میں سے بِصَوْتِكَ : اپنی آواز سے وَاَجْلِبْ : اور چڑھا لا عَلَيْهِمْ : ان پر بِخَيْلِكَ : اپنے سوار وَرَجِلِكَ : اور پیادے وَشَارِكْهُمْ : اور ان سے ساجھا کرلے فِي : میں الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَوْلَادِ : اور اولاد وَعِدْهُمْ : اور وعدے کر ان سے وَمَا يَعِدُهُمُ : اور نہیں ان سے وعدہ کرتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ
اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدہ کرتا رہ اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکہ ہے۔
آیت نمبر 64 اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : واستفزز یعنی تو پھسلا اور دور ہٹا اور اس کا اصل معنی لقطع (کاٹنا) ہے۔ اور اسی سے ہے تفزز الثواب جب کپڑا کٹ جائے، اور اس کا معنی ہے تو اسے حق سے کاٹ کر (یعنی گمراہ کرکے) اسے پھسلا دے۔ اور استفزہ الخوف یعنی خوف نے اسے ہلکا کردیا، دور ہٹادیا اور قعد مستوفزًا یعنی وہ غیر مطمئن بیٹھا۔ واستفزز یہ امر برائے تعجیز (عاجز کرنے کے لئے) ہے، یعنی تو کسی کو گمراہ کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا، اور نہ تجھے کسی پر کوئی غلبہ ہوسکتا ہے پس تو جو چاہے کرلے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : بصوتک اور اس کی آواز ہر وہ داعی ہے جو اللہ تعالیی کی معصیت و نافرمانی کی طرف بلاتا ہے، دعوت دیتا ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : گیت، بانسری، اور لہو (ولہب) ہے۔ ضحاک (رح) نے کہا ہے : بانسری کی آواز مراد ہے۔ اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے ہابیل کی اولاد کو پہاڑ کی چوٹی پر سکونت دی، اور قابیل کی اولاد کو اس کے نیچے رکھا، اور ان میں حسین و جمیل بیٹیاں تھیں، پس شیطان لعین نے بانسری بجائی اور وہ نیچے اترنے سے آپ کو روک نہ سکے پس انہوں نے بدکاری کی : اسے غزنوی نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے۔ بصوتک سے مراد ہے تو اپنے وسوسہ کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : واجلب علیھم بخیلک ورجلک، الاجلاب کا اصل معنی ہے السوق بجلبۃ من السائق (ہانکنے والے کا کسی چیز کو سختی سے ہانک کرلے آنا) ، کہا جاتا ہے : أجلت اجلاباً (وہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھا) اور الجلب اور الجلبۃ کا معنی آوازیں (شوروشغب) ہے۔ تو اسی سے کہتا ہے : جلبوا (یعنی تشدید کے ساتھ) انہوں نے شور مچایا۔ اور جلب الشئ یجلبہ ویجلبا وجلبا (اس نے شے کو ہانکا) اور جلبت الشئ إلی نفسی اور إجتلبتہ دونوں کا معنی ایک ہے۔ اور أجلت علی العدوإجلاباً ، یعنی اس نے دشمن پر دھاوا بول دیا (یکبارگی حملہ کردیا ) ۔ پس آیت کا معنی یہ ہوا تو ان پر دھاوا بول دے جب بھی تو اس پر اپنے مکروفریب سے قدرت رکھے۔ اور اکثر مفسرین نے کہا ہے : مراد اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی میں ہر گھوڑ سوار اور پیدل چلنے والا ہے۔ اور حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ ؓ نے کہا ہے : بیشک جنوں اور انسانوں میں سے اس کے گھوڑ سوار اور پیدل (دستے) ہیں، پس جو بھی گھوڑ سوار پیدل چلنے والا اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی میں قتال کرتا ہے تو وہی ابلیس کے گھوڑ سوار اور پیدل دستے ہیں، اور حضرت سعید بن جبیر اور حضرت مجاہد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہر وہ گھوڑا جو اللہ تعالیٰ ی معصیت میں چلا، اور ہر وہ پاؤں جو اللہ تعالیٰ کی مصیت ونافرنانی میں چلا، اور ہر وہ مال جو حرام سے حاصل کیا گیا، اور ہر وہ بچہ جو بدکار اور باغی ہو تو وہ شیطان کے لئے ہے۔ اور الرجل واجل کی جمع ہے (پیدل) جیسا کہ صحب صاحب کی جمع ہے۔ اور حفص نے ورجلک جیم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں، کہا جاتا ہے : رجل ورجل بمعنی راجل (پیدل چلنے والا) ۔ اور حضرت عکرمہ اور قتادہ نے ورجالک صیغہ کے ساتھ قرأت کی ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ وشارکھم فی الاموال والا ولاد یعنی تو اپنے آپ کو ان میں شریک بنالے، پس اموال میں اس کی شرکت انہیں اللہ تعالیٰ کی معصیت اور نافرمانی میں خرچ کرنا ہے : یہ حسن نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہ ا گیا ہے : یہ شرکت وہ ہے جس کے سبب وہ مالوں کو غیر حلال تک پہنچادیں : یہ حضرت مجاہد نے کہا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : یہ وہ ہے جو وہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام جانوروں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اور یہ حضرت قتادہ نے کہا ہے۔ ضحاک (رح) نے کہا ہے : یہ وہ جانور مراد ہیں جنہیں وہ اپنے بتوں کے نام پت ذبح کرتے تھے۔ اور اولاد میں شرکت کے بارے یہ کہا گیا ہے کہ مراد زنا سے پیدا ہونے والی اولاد ہے : یہ حضرت مجاہد، ضحاک اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور انہین سے یہ بھی ہے : مراد وہ ہے جو انہوں نے اپنے بچوں میں سے قتل کئے اور ان میں جرائم پیدا کردیئے۔ اور اس کے بارے میں یہ بھی ہے کہ اس سے مراد ان کا عبدالحارث، عبدالعزی، عبدالحارث، عبد الللات اور عبد سمش وغیرہ نام رکھنا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان کا اپنے بچوں کو کفر میں رنگنا ہے یہاں تک کہ انہوں نے انہیں یہودی بنادیا اور انہیں عیسائی بنا دیا جیسا کہ عیسائی اپنے بچوں کو اس پانی میں ڈبونے کا عمل کرتے تھے جو ان کے لئے تیار کرتے : یہ حضرت قتادہ نے کہا ہے : اور پانچواں قول ہے۔ حضرت مجاہد (رح) سے مروی ہے انہوں نے کہا : جب آدمی جماع کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو جن (شیطان) اس کے خشفہ کے ساتھ لپیٹ جاتا ہے اور وہ بھی اس کے ساتھ جماع کرتا ہے، اور اسی کے بارے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : لم یطمثھن انس قبلھم ولاجآن۔ (الرحمٰن) (جن کو نہ کسی انسان نے چھوا ہوگا ان سے پہلے اور نہ کسی جن نے ) ۔ اس کا بیان آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حدیث مرومی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک تم میں مغربین ہیں “۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ مغربون کون ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” وہ لوگ جن میں جن شریک ہوجاتے ہیں “ اے حکیم ترمذی نے نو ادرالاصول میں روایت کیا ہے۔ ہر وی نے کہا ہے : پس جنوں کے انسانوں کیساتھ بعض امور اور میل جول میں مفاجر ہوتے ہیں پس ان میں بعض کی ان میں شادی ہوتی ہے اور سبا کی ملکہ بلقیس کے والدین میں سے ایک جنوں میں سے تھا اسکابیان انشاء اللہ تعالیٰ آگے آئیگا مسئلہ نمبر 5 ۔ قولہ تعالیٰ : وعدھم یعنی انہیں جھوٹی امیدیں دلا، اور یہ کہ کوئی قیامت نہیں اور نہ کوئی حساب ہے، اور یہ کہ اگر حساب، جنت اور جہنم ہوئے بھی تو بھی دوسروں کی نسبت تم جنت کے زیادہ مستحق اور اہل ہو۔ اس معنی کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مزید قوت دیتا ہے : یعدھم ویمنیھم وما یعد ھم الشیطٰن الاغرورًا۔ (النساء) (شیطان (جھوٹے) وعدے کرتا ہے ان سے اور (غلط) امیدیں دلاتا ہے انہیں اور نہیں وعدہ کرتا شیطان مگر فریب کا) یعنی شیطان ان سے صرف باطل وعدہ کرتا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے : وعدھم یعنی تو ان کی مدد نصرت کا وعدہ کر ہر اس کے خلاف جو ان کے بارے میں برائی کا ارادہ کرے۔ اور یہ امر شیطان کے لئے جھڑک اور سخت وعید ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ اسے اور اس کی اتباع کرنے والوں کو حقیر اور ہلاک سمجھنا ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ اس آیت میں وہ بھی ہے جو بانسری، گیت، گانے اور لہو (ولہب) کے حرام ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واستفزز من استطعت منھم بصوتک واجلب علیھم یہ حضرت مجاہد (رح) کے قول کے مطابق ہے۔ اور ہر وہ شیطان کی آواز یا اس کے فعل سے ہو اور وہ چیز جسے وہ اچھا سمجھتا ہو اس سے بچنا واجب ہے۔ حضرت نافع (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں رکھ لیں اور راستے سے اپنی سواری کو پھیرلیا اور یہ کہنے لگے : اے نافع ! کیا تو سن رہا ہے ؟ تو میں نے کہا : ہاں، پس آپ چلتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا : نہیں، پس اپنے ہاتھ رکھ دیئے اور اپنی سواری کو اپنے راستے پر لوٹا دیا۔ اور فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : جب اس آواز کے حق میں ان کا فعل اور عمل یہ ہے جو اعتدال سے نہیں تکلتی، تو پھر اس زمانے کے باسیوں کے گانے اور ان کی بانسری، بجانے کے بارے کیفیت اور حالت کیا ہوگی ؟ اس کا مزید بیان سورة لقمان میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top