Al-Qurtubi - Al-Israa : 60
وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ نُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لَكَ : تم سے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب اَحَاطَ : احاطہ کیے ہوئے بِالنَّاسِ : لوگوں کو وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں کیا الرُّءْيَا : نمائش الَّتِيْٓ : وہ جو کہ اَرَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دکھائی اِلَّا : مگر فِتْنَةً : آزمائش لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّجَرَةَ : ور (تھوہر) کا درخت الْمَلْعُوْنَةَ : جس پر لعنت کی گئی فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَنُخَوِّفُهُمْ : اور ہم ڈراتے ہیں انہیں فَمَا يَزِيْدُهُمْ : تو نہیں بڑھتی انہیں اِلَّا : مگر (صرف) طُغْيَانًا : سرکشی كَبِيْرًا : بڑی
جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کو احاطہ کیے ہوئے ہے اور جو نمائش ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لیے آزمائش کیا اور اسی طرح (تھوہر کے) درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔ اور ہم انھیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی سخت سرکشی پیدا ہوتی ہے۔
آیت نمبر 60 قولہ تعالیٰ : واذقلنا لک ان ربک احاطہ بالناس حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہاں الناس سے مراد اہل مکہ ہیں، اور اس کے انہیں گھیرنے سے مراد اس کا انہیں ہلاک کرنا ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ہلاک کردے گا۔ اور اس کو ماضی کے لفظ کے ساتھ ذکر کرنا اس کے تحقیق اور وقوع کے یقینی ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور وہ ہلاک کرنا جس کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے مراد وہ ہے جو کچھ یوم بدر اور یوم فتح کو ہوا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ احاطہ بالناس کا معنی ہے، یعنی اس کی قدرت نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے، پس وہ اس کے قبضے میں ہیں اور وہ اس کی مشیت سے نکلنے پر قدرت نہیں رکھتے : یہ حضرت مجاہد اور ابن ابی نجیح نے کہا ہے۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے اس کا معنی ہے اس کے علم نے لوگوں کو گھیرا ہوا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے : کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگو سے ذپ کی حفاظت اور نگہبانی فرمائے گا کہ وہ آپ کو قتل کریں یہاں تک کہ آپ اپنے رب کا پیغام پہنچادیں، یعنی ہم نے آپ کو ان نگران اور محافظ بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ آپ پر تبلیغ کرنے اور پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہے، پس آپ اپنی محبت اور کوشش کے ساتھ تبلیغ کریں کیونکہ ہم آپ کو ان اسے بچائیں گے اور ہم آپ کی حفاظت کریں گے، پس آپ ان سے نہ ڈریں اور وہ کام کریں تبلغ رسالت میں سے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے، پس ہماری قدرت تمام کو محیط اور گھیرے ہوئے ہے : اس کا یہ معنی حضرت حسن، عروہ اور قتادہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : وماجعلنا الرءیا التی ارینٰک الافتنۃً للناس جب یہ بیان کیا کہ قرآن کریم کی آیات کو نازل کرنا ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کو متضمن ہے تو اس کے ساتھ آیۃ الاسراء کا ذکر ملادیا، اور وہ آیت اس سورت کے آغاز میں مذکور ہے۔ صحیح بخاری اور ترمذی میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے قول باری تعالیٰ : وما جعلنا الرءیا التی ارینٰک الافتنۃ للناس کے تحت فرمایا : یہ آنکھ کے ساتھ دیکھا ہے جو حضور نبی مکرم ﷺ کو اس رات دکھایا گیا جس رات آُ کو بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ فرمایا : والشجرۃ الملعونۃ فی القراٰن یہ زقوم (تھور) کا ردخت ہے۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی (رح) نے کہا ہے : یہ حدیث صحیح ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ کے قول کی مثل ہی حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت معاویہ، حسن، مجاہد، قتادہ، سعید بن جبیر، ضحاک، ابن ابی نجیح اور ابن زید ؓ نے کہا ہے۔ اور فتنہ سے مراد قوم کا مرتد ہوتا ہے جو اسلام لاچکے تھے ( اور اس وقت مرتد ہوگئے) جب نبی مکرم ﷺ نے انہیں خبر دی کہ انہیں معراج پر لے جایا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ حالت نیند کی رؤیت ہے۔ اور یہ آیت اس قول کے فاسد ہونے کا تقاضا کرتی ہے، اور وہ اس لئے کہ حالت خواب میں دیکھنے میں کوئی فتنہ نہیں ہے۔ اور کوئی بھی نہیں ہے جو اس کا انکار کرے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : اس آیت میں جس رؤیا کا ذکر ہے وہ رسول اللہ ﷺ کا حدیبیہ کے سال میں یہ دیکھنا ہے کہ آیت مکہ مکر مکہ میں داخل ہوں گے، لیکن آپ کو واپس لوٹا دیا گیا پس مسلمان اس وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہوگئے، تب یہ آیت نازل ہوئی، پس جب آئندہ سال آیا تو آپ اس میں داخل ہوئے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لقد صدق اللہ رسولہ الرءیا بالحق (الفتح : 27) (یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا حق کے ساتھ) اس تاویل میں ضعف ہے، کیونکہ یہ سورت مکی ہے اور وہ نظارہ آپ نے مدینہ طیبہ میں دیکھا تھا۔ اور تیسری روایت میں آپ نے کہا آپ ﷺ نے خواب میں بنی مروان کو دیکھا کہ وہ آپ کے منبر پر بندروں کے کودنے کی طرح کود رہے ہیں، تو آپ کو یہ بہت برا لگا تو کہا گیا : بلاشبہ یہ دنیا ہے جو انہیں عطا کی گئی ہے، پس آپ سے فکر دور کردی گئی، اور آپ کا مکہ مکرمہ میں کوئی منبر نہ تھا لیکن یہ جائز ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ میں مدینہ منورہ والے منبر کا نظارہ دیکھا ہو۔ اور یہ تیسری تاویل حضرت سہل بن سعد نے بھی بیان کی ہے۔ حضرت سہل (رح) نے کہا ہے : بیشک یہی نظارہ وہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نبی امیہ کو اپنے منبر پر بندروں کے کودنے کی طرح کودتے دیکھا، تو آپ اس سے غمزدہ ہوگئے، اور اس دن سے آپ کھل کر نہ ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کا وصال ہوگیا، پس یہ آیت اس کی خبر دینے کے لئے نازل ہوئی کہ ان کی بادشاہی اور ان کے غالب آنے کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے فتنہ (آزمائش) اور امتحان بنادے گا۔ اور امام حسن بن علی ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کے ہاتھ پر اپنی بیعت کے بارے میں اپنے خطبہ میں پڑھا : وان ادری لعلہ فتنۃ لکم ومتاع الیٰ حین (الابنیاء) (اور میں کیا جانوں (اس ڈھیل سے) شاید تمہارا امتحان لینا اور ایک وقت تک تمہیں لطف اندروز کرنا مطلوب ہو) ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ تاویل محل نظر ہے۔ اور اس رویا میں حضرت عثمان، حضرت عمر بن عبدالعزیز، اور حضرت معاویہ ؓ داخل نہیں ہیں۔ قولہ تعالیٰ : و الشجرۃ الملعونۃ فی القراٰن اس میں تقدیم وتاخیر ہے، یعنی ماجعلنا الرؤیا ألتی أریناک والشجرۃ الملعونۃ فی القرآن إلافتنۃ للناس۔ (ہم اس نظارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے نہیں بنایا مگر لوگوں کے لئے آزمائش) اور اس کا فتنہ یہ تھا کہ انہیں جب اس کے ساتھ خوفزدہ کیا گیا تو ابوجہل نے استہزا کیا : یہ محمد ﷺ ہیں تمہیں ایسی آگ سے ڈرا رہے ہیں جو پتھروں کو جلاتی ہے، پھر یہ گمان کرتے ہیں کہ درختوں کو اگاتی ہے حالانکہ آگ درختوں کو کھاتی ہے، اور ہم زقوم کو نہیں پہچانتے مگر یہ کہ وہ کھجور اور مکھن ہے، پھر ابوجہل نے اپنی لونڈی کو حکم دیا پس وہ کھجور اور مکھن لے آئی اور اس نے اپنے ساتھیوں کو کہا : تزقموا زقوم کھاؤ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہ قول کہ ہم زقوم کو نہیں جانتے مگر کھجور اور مکھن، کہنے والا ابن زبعری ہے جس وقت اس نے کہا : کثر اللہ من الزقوم فی راد کم (اللہ تعالیٰ تمہارتے گھر میں زقوم زیادہ کرے) ، کیونکہ لغت یمن میں اس سے مراد مکھن اور کھجور ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں نے اس طرح کہا ہو۔ پس بعض ضعیف اور کمزور لوگ اس قول کی وجہ سے بھی آزمائش اور فتنہ میں پڑگئے، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو خبر دی ہے کہ بیشک واقعہ معراج اور زقوم کے درخت کے ذکر کو آزمائش اور امتحان بنا دیا گیا ہے تاکہ وہ کافر ہوجائے جس پر کفر سبقت لے گیا ہے اور وہ تصدیق کرلے جس کے لئے ایمان سبقت لے گیا ہے۔ (یعنی جو اللہ تعالیٰ کے علم میں کافر ہے وہ انکار کردے اور جو مومن ہے وہ تصدیق کردے۔ ) جیسا کہ روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو معراج کی صبح کہا گیا : بیشک آپ کا ساتھی کہہ رہا ہے کہ وہ گزشتہ رات بیت المقدس میں سے ہو آیا ہے ! تو آپ نے فرمایا : ان کان قال ذالک فقد صدق اگر آپ نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔ تو آپ کو کہا گیا : کیا آپ ان کی تصدیق کررہے ہیں اس سے پہلے کہ آپ ان سے سنیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : تمہاری عقلیں کہاں ہیں ؟ میں آسمان کی خبر کے بارے ان کی تصدیق کرتا ہوں، تو میں بیت المقدس کی خبر کے بارے کیسے ان کی تصدیق نہیں کروں گا، حالانکہ آسمان اس سے بہت زیادہ دور ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ خبر ابن اسحاق نے ذکر کی ہے، اور انہوں نے بیان کیا ہے : فرمایا حضور نبی مکرم ﷺ کے سفر معراج کے بارے میں جو حدیث مجھ تک پہنچی ہے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابو خدری، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان، حسن بن ابیالحسن، ابن شہاب زہری اور قتادہ ؓ ان کے علاوہ دیگراہل علم اور حضرت ام ہانی سے مروی ہے، جو کچھ اس حدیث میں جمع ہے، ہر کوئی ان بعض امور کو بیان کرتا ہے جو حضور نبی مکرم ﷺ کے واقعہ اسراء کے وقت بیان کئے گئے، اور آپ ﷺ کے سفر اسراء میں اور جو کچھ اس بارے میں ذکر کیا گیا ہے اس میں آزمائش، امتحان اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی سلطنت سے متعلقہ امور میں سے کئی امور ہیں، اس میں صاحب عقل لوگوں کے لئے سامان عبرت ہے، اور ان کے لئے ہدایت، رحمت اور اثبات ہے جو ایمان لائے اور تصدیق کی۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ امر تو یقینی ہے کہ اس نے آپ ﷺ کو سیر کرائی جیسے چاہی اور جہاں تک چاہی تاکہ وہ آپ ﷺ کو اپنی وہ نشانیاں دکھائے جن کا اس نے ارادہ کیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے امر، اس کی عظیم سلطنت اور اس کی وہ قدرت جس کے ساتھ وہ جو چایتا ہے کرتا ہے کا معائنہ اور مشاہدہ کیا۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس روایت میں جو ان سے مجھ تک پہنچی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس براق لایا گیا۔۔۔۔ اور یہ وہ جانور ہے جس پر آپ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کو اٹھا یا جاتا رہا وہ اپنا قدم اپنی حدنگاہ پر رکھتا ہے۔۔۔۔ پس آپ ﷺ کو اس پر سوار کیا گیا، پھر اس کا صاحب (لانے والا) اسے لے کر نکلا آپ آسمان و زمین میں موجود علامات اور آیات دیکھتے رہے، یہاں تک کہ آپ بیت المقدس تک پہنچ گئے، تو اس میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کو گروہ انبیاء میں دیکھا وہ آپ کے لئے گئے تھے تو آپ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی پھر آپ کے پاس تین برتن لائے گئے : ایک برتن میں دودھ تھا، ایک برتن میں شراب تھی، اور ایک برتن میں پانی تھا۔ انہوں نے بیان کیا ؛ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سو میں نے کسی کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا جس وقت وہ مجھ پر پیش کئے گئے کہ اگر انہوں نے پانی لیا تو غرق ہوجائیں گے اور ان کی امت بھی غرق ہوجائے گی، اور اگر انہوں نے شراب پکڑی تو گمراہ ہوجائیں گے اور ان کیا امت بھی گمراہ ہوجائے گی، اور اگر انہوں نے دودھ لیا تو خود بھی ہدایت پا جائیں گے اور ان کی امت بھی ہدایت پاجائے گی “۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” پس میں نے دودھ والا پی لیا تو جبرائیل امین نے مجھے کہا :” اے محمد ! ﷺ آپکی راہنمائی کردی گئی اور آپکی امت کی بھی راہنمائی کردی گئی۔ “ ابن اسحاق نے کہا ہے : میں نے حسن سے حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اس اثنا میں کہ میں حجرے میں سو رہا تھا میرے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے اپنے پاؤں کے ساتھ مجھے دبایا تو میں بیٹھ گیا لیکن میں نے کوئی شے نہ دیکھی پھر میں اپنے بستر کی طرف لوٹ گیا پھر وہ دوسری بار میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنے پاؤں کے ساتھ مجھے دبایا تو میں بیٹھ گیا لیکن میں نے کوئی شے نہ دیکھی پھر میں نے اپنے بستر کی طرف لوٹ گیا۔ پھر وہ تیسری بار میری طرف آئے اور اپنے قدموں کے ساتھ مجھے دبایا تو میں پیٹھ گیا اور انہوں نے میرا بازو پکڑا لیا اور میں ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور وہ مسجد کے دروازے کی طرف نکل گئے وہاں سفید رنگ کا جانور تھا جو (قد میں) خچر اور گدھے کے ردمیان تھا اس کی رانوں پر دو پر تھے وہ انہیں اپنی ٹانگوں پر مارتا تھا اور اپنا قدم اپنی انتہائے نگاہ پت رکھتا تھا پس انہوں نے مجھے اس پر سوار کردیا پھر میرے ساتھ نکل پڑے پھر نہ وہ مجھ سے الگ ہوئے اور نہ میں ان سے الگ ہوا۔ “ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے اور مجھے حضرت قتادہ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا، مجھے بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب میں اس کے قریب ہوا کہ میں اس پر سوار ہوں تو وہ اچھلنے اور بدکنے لگا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ اس کی کلغی والی جگہ پر رکھا اور فرمایا : اے براق ! کیا تو اس سے حیا نہیں کرتا جو تو کررہا ہے ؟ قسم بحدا ! حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے پہلے اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ تجھ پر سوار نہیں ہوا جوان سے زیادہ معزز ومکرم ہو، فرمایا : پس اسے حیاء آگئی یہاں تک کہ پسینہ بہنے لگا پھر وہ پرسکون ٹھہر گیا اور میں اس پر سوار ہوگیا۔ “ حسن نے اپنی حدیث میں کہا ہے : پس رسول اللہ ﷺ چلے اور ان کے ساتھ جبرائیل امین بھی چلتے رہے یہاں تک کہ آپ بیت المقدس پہنچ گئے، پس وہاں آپ نے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کو گروہ انبیاء (علیہم السلام) میں پایا، پس رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت کرائی اور انہیں نماز پڑھائی پھر آپ کے پاس دو برتن لائے گئے : ان میں سے ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا، فرمایا : پس رسول اللہ ﷺ نے دودھ کا برتن پکڑلیا اور اس سے پی لیا اور شراب کا برتن چھوڑدیا۔ راوی نے کہا : تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو کہا : آپ کی راہنمائی فطرت کی طرف کردی گئی اور آپ کی امت کو ہدایت دے دی گئی اور تم پر شراب حرام کردی گئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ کی طرف واپس لوٹ کر آئے، پس جب صبح کی اور قریش کی ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے انہیں واقعہ کی خبر دی، تو اکثر لوگوں نے کہا : قسم بخدا ! یہ معاملہ تو بین اور واضح ہے ؟ قسم بخدا ! بیشک ایک قافلہ مکہ سے شام کی طرف مسلسل ایک مہینہ چلتا ہے ایک مہینہ جاتے ہوئے اور ایک مہینہ واپس آتے ہوئے، اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ وہاں ایک رات میں جاتے ہیں اور مکہ کی طرف واپس بھی لوٹ آتے ہیں ! راوی نے بیان کیا : پس سے وہ مرتد ہوگئے جو ابھی ابھی اسلام لائے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرف گئے : اے ابوبکر ! کیا تجھے اپنے ساتھی کے بارے خبر ہے ؟ اس کا خیال ہے کہ وہ اس رات بیت المقدس آیا، اور اس میں نماز پڑھی اور واپس مکہ لوٹ آیا۔ تو حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے فرمایا : بیشک تم ان کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہو، تو انہوں نے کہا : نہیں، بلکہ وہ وہاں مسجد میں بیٹھے لوگوں سے بیان کررہا ہے۔ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا : قسم بخدا ! اگر انہوں نے یہ کہا ہے تو یقیناً وہ سچ ہے اس میں سے کون سی شے تمہیں تعجب میں ڈال رہی ہے ؟ قسم بخدا ! بلاشبہ وہ مجھے خبر دیتے ہیں کہ یہ خبر آسمان سے زمین کی طرف رات یا دن کی ایک ساعت میں آتی ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، تو یہ اس سے بہت بعید اور دور ہے جس سے تم تعجب کررہے ہو۔ پھر آپ آئے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور عرض کی : یا نبی اللہ ! ﷺ کیا آپ نے انہیں یہ بیان کیا ہے کہ آپ اس رات بیت المقدس تشریف لے گئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں “ آپ نے عرض کی : یانبی اللہ ! ﷺ آپ اس کے بارے مجھے بیان فرمایئے، کیونکہ میں نے اسے دیکھا ہوا ہے پس حسن نے بیان کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اسے میرے لئے اٹھایا گیا یہاں تک کہ میں اسے دیکھنے لگا۔ “ اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے سامنے اس کی ہئت بیان فرمانے لگے اور ابوبکر ؓ کہنے لگے : آپ نے سچ فرمایا ہے، میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں جب بھی آپ اس میں اس میں سے کوئی شے بیان فرماتے تو یہ کہتے : صدقت، أشھد أنک رسول اللہ (آپ نے سچ فرمایا ہے، میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ ) راوی نے بیان کیا : یہاں تک جب بات مکمل ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فرمایا : وأنت یا ابابکر الصدیق (اے ابابکر تو تو صدیق ہے) پس اس دن آپ نے آپ کا نام صدیق رکھ دیا۔ حسن نے بیان کیا ہے : اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے یہ آیت نازل فرمائی جو اس وجہ سے اسلام سے مرتد ہوگئے : وما جعلنا الرءیا التیٓ ارینٰک الا فتنۃ للناس الشجرۃ الملعونۃ فی القراٰن ونخوفھم فما یزید ھم الا طغیاناً کبیرًا۔ پس یہ رسول اللہ ﷺ کے واقعہ اسراء کے بارے حسن کی حدیث ہے اور کچھ اس میں حضرت قتادہ کی حدیث سے بھی داخل ہے، اور ان سے باقی واقعہ معراج کا ذکر کتب میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ درخت بنو امیہ ہیں، اور یہ کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حکم کو شہر بدر کردیا۔ یہ قول ضعیف اور من گھڑت ہے اور یہ سورت مکی ہے، اور یہ تاویل بعید ہے، مگر اس صورت میں کہ یہ آیت مدنی ہو، لیکن یہ ثابت نہیں۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے مروان کو کہا تھا : اللہ تعالیٰ نے تیرے باپ پر لعنت کی ہے اور تو اس کی صلب میں تھا پس تو بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت کا بعض اور جز ہے۔ پھر فرمایا : والشجرۃ الملعونۃ فی القراٰن اور قرآن میں اس درخت پر لعنت جائز نہیں، لیکن (اس طرح کہ) اللہ تعالیٰ نے کفار پر لعنت کی ہے اور وہ اسے کھانے والے ہیں۔ اور اس کا معنی ہے : والشجرۃ الملعونۃ فی القرآن آکلوھا۔ (اور وہ درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے وہ اسے کھانے والے ہیں) اور یہ بھی ممکن ہے کہ عربوں کے اس قول کی بنا پر ہو کہ وہ ہر ناپسند اور نقصان دہ کھانے کے لئے کہتے ہیں : ملعون ( اس پر لعنت کی گئی ہے۔ ) اور حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا : الشجرۃ الملعونہ سے مراد وہی درخت ہے جو درختوں پر لپٹ جاتا ہے اور انہیں ماردیتا ہے (یعنی خشک کردیتا ہے) مراد الکشوث ہے (یعنی ایک قسم کی گھاس ہے جو کانٹوں اور درختوں پر لپٹی ہوتی ہے نہ اس کی جڑ ہوتی ہے نہ اس کے پتے ہوتے ہیں۔ المنجد) ونخوفھم اور ہم انہیں زقوم (تھور) کے ساتھ ڈراتے ہیں۔ فما یزیدھم اور یہ ڈرانا سوائے ھفر کے ان میں کوئی اضافہ نہیں کرتا۔
Top