Al-Qurtubi - Al-Israa : 50
قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًاۙ
قُلْ : کہ دیں كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ حِجَارَةً : پتھر اَوْ : یا حَدِيْدًا : لوہا
کہہ دو کہ (خواہ تم) پتھر ہوجاؤ یا لوہا۔
آیت نمبر 50 تا 51 قولہ تعالیٰ : قل کونوا حجارۃً اوحدیدًا یعنی اے محمد ! ﷺ آپ انہیں فرمایئے (اگرچہ) تم عاجز کرنے کی جہت سے تم شدت اور قوت میں پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤ (تب بھی ایسا ہی ہوگا۔ ) علامہ طبری (رح) نے کہا ہے : اگر تمہیں اس پر تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ہڈیاں اور گوشت پیدا کرے گا تو تم پتھر یا لوہا ہوجاؤ اگر تم قدرت رکھتے ہو۔ اور علی بن عیسیٰ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے کہ تم اگر پتھر یا لوہا بھی ہوئے تو تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے جب اس نے تمہارا ارادہ کرلیا، مگر یہ کلام امر کے محل میں ہے، کیونکہ الزام میں یہ زیادہ بلیغ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اگر تم پتھر یا لوہا بھی ہوئے تو وہ یقیناً تمہیں دوبارہ اٹھائے گا جس اس نے پہلی بار پیدا کیا ہے، اور وہ یقیناً تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم جو چاہو ہوجاؤ تم عنقریب دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ قول اچھا ہے کیونکہ وہ یہ استطاعت اور طاقت نہیں رکھتے کہ وہ پتھر ہوجائیں۔ اور بلاشبہ اس کا معنی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے خالق کے بارے اقرار کرلیا اور دوباررہ زندہ کئے جانے کا انکار کیا تو انہیں کہا گیا کہ یہ سمجھ لو کہ تم جو چاہو ہوجاؤ، پس اگر تم پتھر یا لوہا بھی ہوئے تو بھی تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے جس طرح پہلی بار پیدا کئے گئے۔ اوخلقًا ممایکبرفی صدورکم حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : مراد آسمان، زمین اور پہاڑ ہیں کیونکہ لوگوں کے خیال میں یہ بڑے عظیم ہیں۔ اور یہی معنی حضرت قتادہ کے قول کا ہے۔ وہ کہتے ہیں : تم جو چاہو ہوجاؤ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں موت دے گا اور پھر تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا۔ اور حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت عبداللہ بن عاص، ابن جبیر، مجاہد نے بھی، عکرمہ، ابوصالح، اور ضحاک ؓ نے کہا ہے : مراد موت ہے، کیونکہ ابن آدم (انسان) کے خیال میں اس سے بڑی اور کوئی شے نہیں ہے، جیسا کہ امیہ بن ابی صلت نے کہا ہے : وللمؤت خلق فی النفوس فظیع (لوگوں کے خیال میں موت خوفناک مخلوق ہے۔ ) اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے : بیشک تم اگر پتھر یا لوہے سے پیدا کئے جاتے یا تم موت ہوتے تو میں ضرور تمہیں موت دوں گا اور یقینا تمہیں دوبارہ اٹھاؤں گا، کیونکہ وہ قدرت جس کے ساتھ میں نے تمہیں پیدا کیا ہے اسی کے ساتھ تمہیں دوبارہ اٹھاؤں گا۔ اور یہی معنی ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا : فسیقولون من یعیدنا قل الذی فطر کم اول مرۃ اور حدیث میں ہے کہ ” قیامت کے دن چتکبرے مینڈھے کی صورت میں موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان ذبح کردیا جائے گا۔ “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد بعث (دربارہ زندہ کیا جانا) ہے، کیونکہ لوگوں کے خیال میں یہی سب سے بڑی شے ہے : یہ کلبی (رح) نے کہا ہے۔ فطرکم جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں پیدا کیا اور تمہیں بنایا۔ فسینضون الیک رء وسھم یعنی وہ بطور استہزا اپنے سروں کو حرکت دیتے ہیں : کہا جاتا ہے : نغض رأسہ ینغض وینغض نغضا ونغوضاً ، یعنی اس کے سر نے حرکت کی۔ اور أنغض رأسہ یعنی اس نے اپنے سر کو ہلایا، حرکت دی، اسطرح جیسا کہ کوئی کسی شے سے تعجب کرنے والا کرتا ہے۔ اور اسی سے قول باری تعالیٰ ہے : فسینغضون الیک رء وسھم۔ راجز لا قول ہے : أنغض نحوی رأسہ وأقنعا (اس نے میری طرف اپنے سر کو ہلایا اور اسے اوپر اٹھالیا) اور یہ بھی کہا جاتا ہے : نغض فلان رأسہ (یعنی فلاں نے اپنے سر کو حرکت دی) یہ متعدی اور غیر متعدی دونوں طرح آتا ہے، اسے اخفش نے بیان کیا ہے۔ اور کہا جاتا ہے : نغضت سنہ یعنی اس کا دانت ہل گیا اور اکھڑ گیا۔ راجز نے کہا ہے : و نغضت من ھرم أسنانھا (بڑھاپے کے سبب اس کے دانت ہل گئے) اور دوسرے نے کہا ہے : لما رأتنی انغضت لی الرأسا (جب اس نے مجھے دیکھا تو میرے لئے اپنا سر ہلا دیا) ۔ اور ایک اور نے کہا ہے : لا ماء فی المقراۃ إن لم تنھض بمسد فوق المحال النغض المحال اور المھالۃ سے مراد وہ بڑی چرخی ہے جس کے ساتھ اونٹوں کو پانی پلایا جاتا ہے۔ ویقولون متیٰ ھو یعنی وہ کہتے ہیں کہ دوبارہ زندہ کیا جانا، لوٹا نا اور وہ وقت کب ہوگا۔ قل عسیٰ ان یکون قریبًا یعنی آپ فرمایئے وہ قریب ہے، کیونکہ عسیٰ واجب کے معنی میں ہے : اس کی نظیریہ ہے : ومایدریک لعل الساعۃ تکون قریبًا۔ (الاحزاب) (اور (اے سائل ! ) تو کیا جانے شاید وہ گھڑی قریب ہی ہو۔ ) اور لعل الساعۃ قریب۔ (الشوریٰ ) (شاید وہ گھڑی قریب ہی ہو۔ ) اور ہر وہ شے جو آنے والی ہو تو وہ قریب ہی ہوتی ہے۔
Top