Al-Qurtubi - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور چور چور ہوجائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا ہو کر اٹھیں گے۔
آیت نمبر 49 قولہ تعالیٰ : اذا کناعظاما ورفاتًاء یعنی انہوں نے یہ کہا اس حال میں کہ وہ سرگوشیاں کررہے تھے جب انہوں نے قرآن کریم سنا اور دوبارہ زندہ کئے جانے کا حکم سنا کہ اگر یہ جادو کیا ہوا اور دھوکا دیا ہوا نہ ہوتا تو یہ اس طرح نہ کہتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : الزقات کا معنی غبار ہے۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی تراب (مٹی) ہے۔ اور الرفات ہر وہ شے جو زیزہ ریزہ ہوجائے اور ہر وہ شے جو بوسیدہ اور پرانی ہوجائے، جیسا کہ فتات، حطام اور رضاض (تینوں کا معنی ٹوٹی ہوئی چیز کے ٹکڑے اور چورا ہے۔ ) یہ ابو عبیدہ، کسائی، فراء اور اخفش سے منقول ہے، اسی سے تو کہتا ہے : رفت الشئ رفتا، یعنی چیز کو توڑ دیا گیا فھومرفوت (پس وہ ٹوٹی ہوئی ہے) انالمبعوثون خلقًا جدیدًا، أئنا استفہام ہے اور اس سے مراد حجد اور انکار ہے۔ اور خلقًا منصوب ہے کیونکہ یہ مصدر ہے، یعنی بعثا جدیدا (نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھانا، تو یہ مفعول مطلق ہے۔ ) اور یہ ان کی طرف سے حددرجے کا انکار ہے
Top