Al-Qurtubi - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
اور جب تم قرآن پڑھا کرتے ہو تو ہم تم میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے حجاب پر حجاب کردیتے ہیں
آیت نمبر 45 حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ جب سورة تبت یدا ابی لھب (لہب :1) نازل ہوئی تو کانی ام جمیل بنت حرب آئی وہ بڑے جوش اور غصے میں تھے اور اس کے ہاتھ میں پتھر تھا اور وہ کہہ رہی تھی : مذمماعصینا (ہم نے مذمم کی نادفرمانی کی) وامرہ أبینا (ہم نے اس کے حکم کا انکار کیا) ودینہ قلینا (اور ہم نے اس کے دین کو ناپسند کیا) ۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ مسجد میں تسریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی تھے، پس جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے دیکھا تو عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ وہ آرہی ہے اور مجھے خوف ہے کہ وہ آپ کو دیکھ لے گی ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انھا لن ترانی (بےشک وہ مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گی) اور آپ ﷺ نے قرآن کریم پڑھا اور اس کے ساتھ محفوظ رہے جیسے آپ نے فرمایا تھا۔ اور آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : واذاقرات القراٰن جعلنا بینک وبین الذین لایؤمنوں بالاٰخرۃ حجابًا مستورا پس وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آکر رکی اور اس نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا اور کہنے لگی : اے ابابکر ! مجھے خبر دی گئی ہے کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے ! تو آپنے فرمایا : نہیں اس گھر کے رب کی قسم انہوں نے تیری ہجو نہیں کی۔ آپ فرماتے ہیں : پس وہ واپس مڑی تو یہ کہہ رہی تھی : تحقیق قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں۔ اور حضرت سعید بن جبیر نے بیان کیا ہے : جب تبت یدا ابی لھب وتب۔ (لہب) نازل ہوئی تو ابو لہب کی بیوی حضور نبی مکرم ﷺ کی طرف آئی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی آپ کے ساتھ تھے، تو حضرت صدیق ؓ نے عرض کی : کاش آپ اس سے دورہٹ جائیں تاکہ ہو آپ کو کوئی ایسا کلمہ نہ سنا دے جو آپ کو اذیت اور تکلیف پہنچائے، کیونکہ یہ فحش بکنے والی عورت ہے۔ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : إنہ سیحال بینی وبینھا (بلاشبہ میرے درمیان اور اس کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا جائے گا) پس وہ آپ ﷺ کو نہ دیکھ سکی۔ اور اس نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے پوچھا : اے ابابکر ! تیرے ساتھی نے میری ہجو بیان کی ہے ! تو آپ نے فرمایا : قسم بخدا ! نہ وہ شعر بناتے ہیں اور نہ شعر کہتے ہیں تو اس نے کہا : بلاشبہ آپ تو ان کی تصدیق کرتے ہیں، پھر وہ وہیں سے واپس لوٹ گئی، تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” نہیں۔ میرے اور اس کے درمیان حائل ہو کر فرشتے نے مجھے مسلسل ڈھانپے رکھا یہاں تک کہ وہ چلی گئی۔ “ (لا۔ مازال ملک بینی وبینھا یسترنی حتی ذھبت) اور حضرت کعب نے اس آیت کے تحت کہا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ تین آیات کے ساتھ مشرکین کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے تھے : ایک آیت وہ ہے جو سورة انعام میں ہے : وجعلنا علیٰ قلوبھم اکنہ ان یفقھوہ فی اٰذانھم وقرا (الانعام :25) (ہم نے ڈال دیئے ان کے دلوں پر پردے تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کردی۔ ) اور ایک آیت وہ جو سورة نحل میں ہے : اولٰئک الذین طبع اللہ علیٰ قلوبھم وسمعھم وابصارھم (النحل :108) (یہ وہ لوگ ہیں مہر لگادی ہے اللہ تعالیٰ نے جن کے دلوں، جن کے کانوں اور آنکھوں پر۔ ) اور ایک آیت وہ ہے جو سورة جاثیہ میں ہے : افرءیت من ات خدا لٰھہ ھوئہ واضلہ اللہ علی علم وختم علی سمعہٖ وقلبہٖ وجعل علیٰ بصرہٖ غشٰوۃً الآیہ (الجاثیہ :23) (ذرا اس کی طرف تو دیکھو جس نے بنالیا ہے اپنا خدا اپنی خواہش کو اور گمراہ کردیا ہے اسے اللہ نے باوجود علم کے اور مہر لگادی ہے اس کے کانوں اور اس کے بدل پر اور ڈال دیا ہے اس کی آنکھوں پر پردہ۔ ) حضور نبی کریم ﷺ جب یہ آیات پڑھ لیتے تھے تو مشرکین سے اوجھل ہوجاتے تھے، حضرت کعب ؓ نے بیان کیا : میں نے ان کے بارے اہل شام میں سے ایک آدمی کو بتایا، پس وہ روم آگیا اور وہیں طویل عرصہ تک قیام پذیر رہا، پھر وہاں سے بھاگ نکلا تو وہ لوگ اسکی تلاش میں نکلے تو اس نے یہی آیات پڑھ لیں تو وہ اس طرح ہوگئے کہ راستے میں اس کے ساتھ ہونے لے باوجود اسے دیکھ نہ سکتے تھے۔ ثعلبی (رح) نے کہا ہے : یہ وہی ہے جسے وہ حضرت کعب سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ میں نے اس کے بارے اہل الری میں سے ایک آدمی کو بتایا اور وہ دیلم میں قید ہوگیا کافی عرصہ وہاں ٹھہرا رہا پھر وہاں سے بھاگ نکلا تو وہ اس کی تلاش میں نکلے تو اس نے یہ آیات پڑھ لیں۔ یہاں تک کہ ان کے کپڑے اس کے کپڑوں کے ساتھ مس ہونے لگے لیکن وہ اسے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ہم ان آیات میں سورة یٰسین کی ابتدا سے لے فھم لایبصرون تک کا اضافہ کرتے ہیں، کیونکہ سیرت میں حضور نبی مکرم ﷺ کے ہجرت فرمانے اور حضرت علی ؓ کے آپ کے بستر پر آرام فرمانے کا تذکرہ موجود ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور ایک مشت مٹی اپنے ہاتھ میں اٹھائی، اور اللہ عزوجل نے ان کی آنکھوں پر آپ کو دیکھنے پردہ ڈال دیا۔ پس وہ آپ ﷺ کو نہ دیکھ سکے، اور آپ نے وہ مٹی ان کے سروں پر پھینک دی اور آپ سورة یٰسین کی یہ آیت پڑھتے رہے : یٰسٓۚ والقراٰن الحکیم ۙانک لمن المرسلینۙعلیٰ صراطٍ مستقیمؕ تنزیل العزیز الرحیمۙ لتنذر قومآ انذر اٰباؤھم فھم غٰفلون۔ لقد حق القول علی اکثرھم فھم لایؤمنون۔ اناجعلنا فی اعناقھم اغلٰلاً فھی الی الاذقان فھم مقمحون۔ وجعلنا من بین ایدیھم سدًاو من خلفھم سدًا فاغشینٰھم فھم لایبصرون۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ان آیات سے فارغ ہوگئے، اور ان میں سے کوئی آدمی باقی نہ رہا جس کے سر پت مٹی نہ پڑی ہو، پھر آپ اس طرف چلے گئے یہاں جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ہمارے علاقے اندلس میں اعمال قرطبہ میں حصن منشور کے ساتھ اسی طرح کا واقعہ مجھے پیش آیا، وہ یہ کہ دشمن کے سامنے سے بھاگ گیا اور میں اس سے ایک طرف پیچھے ہٹ گیا، پس ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ رد گھڑسوار میری تلاش میں نکل پڑے اور میں زمین کی کھلی فضا میں بیٹھا ہوا تھا اور کوئی چیز مجھے ان سے چھپانے اور ڈھانپنے والی نہ تھی، اور میں سورة یٰسین شروع سے اور علاوہ ازیں قرآن کریم کی آیات پڑھنے لگا، تو وہ دونوں مجھ سے آگے گزر گئے پھر اسی جگہ سے واپس لوٹے تو ان سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا یہ تو دیبلہ یعنی شیطان (جن) ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور وہ مجھے نہ دیکھ سکے، والحمد للہ حمدا کثیرا علی ذالک۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ پردہ (مستور) ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی مہر ہے یہاں تک کہ نہ وہ اسے سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس میں موجود حکمت کا ادراک کرسکتے ہیں۔ یہ حضرت قتادہ نے کہا ہے۔ اور حسن (رح) نے کہا ہے : یعنی یہ کہ ان کے آپ کی قرأت سے اعراض کرنے اور آپ سے تغافل برتنے کے سبب یہ اس طرح ہے کہ آپ کے درمیان اور ان کے درمیان آپ کو نہ دیکھنے کے بارے میں حجاب اور پردہ ہے گویا ان کے دلوں پر پردہ سا پڑگیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ آیت اس قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچاتے تھے جب آپ قرآن کریم پڑھتے تھے، اور وہ ابوجہل، ابوسفیان، نضر بن حارث، ابولہب کی بیوی ام جمیل، اور حویطب تھے، پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کو قرآن کریم پڑھنے کے وقت ان کی آنکھوں سے اوجھل کردیا، چھپا دیا۔ وہ آپ ﷺ کے پاس سے گزرتے تھے اور آپ کو دیکھتے نہ تھے : یہ زجاج وغیرہ نے کہا ہے۔ اور یہی پہلے قول کا بعینہ معنی ہے، اور یہی آیت میں اظہر ہے۔ واللہ اعلم۔ اور قول باری تعالیٰ : مستورًا اس میں دو قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے۔۔۔ کہ حجاب تم سے چھپا ہوا ہے تم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ اور دوسرا یہ ہے۔۔۔ کہ حجاب تم سے اپنے ورا کو چھپانے اور ڈھانپنے والا ہے اور اس صورت میں مستور بمعنی ساتر ہوگا۔
Top