Al-Qurtubi - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
کہہ دو کہ اگر خدا کے ساتھ اور معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو وہ ضرور (خدائے) مالک عرش کی طرف ضرور (لڑنے بھڑنے کے لیے) راستہ نکالتے۔
آیت نمبر 42 تا 43 قولہ تعالیٰ : قل لو کان معہٓ اٰلھۃ یہ اس ارشاد کے ساتھ متصل ہے : ولا تجعل مع اللہ الٰھا (الاسراء :29) اور یہ بتوں کی پر سیش کرنے والوں کا رد ہے۔ کمایقومون ابن کثیر اور خفض نے یقولقون ای کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے تقولون خطاب کی بنا پر تا کے ساتھ پڑھا ہے۔ اذالا بتغوا یعنی ان الہٰوں نے تلاش کرلی ہوتی۔ الیٰ ذی العرش سبیلاً حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑا کرنے اور جنگ کرنے کا مطالبہ کرتے جیسا کہ دنیا کے بادشاہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور حضرت سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تب انہوں نے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کوئی راہ تلاش کرلی ہوتی تاکہ وہ اس کی بادشاہی کو زائل اور ختم کرسکیں، کیونکہ وہ اس کے شریک ہیں۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تب ان خداؤں نے صاحب عرش کے پاس قرب کی رہ تلاش کرلی ہوتی، اور اس کی نزدیکی تلاش کرچکے ہوتے کیونکہ وہ اس کے سوا ہیں، اور قوم یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ بت انہیں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب کردیتے ہیں، پس انہوں نے بتوں کے بارے میں یہ اعتقاد رکھا کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے محتاج ہیں تو پھر یہ باطل ہوگیا کہ وہ الٰہ ہیں۔ سبحٰنہ وتعلیٰ عمایقولون علوًا کبیرًا اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی ہر اس شے سے پاکی، عظمت اور بزرگی بیان کی ہے جو اس کے لائق اور مناسب نہیں۔ اور تسبیح کا معنی تنزیہ (پاکی بیان کرنا) ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top