Al-Qurtubi - Al-Israa : 37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا١ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
وَلَا تَمْشِ : اور نہ چل فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَرَحًا : اکڑ کر (اتراتا ہوا) اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَخْرِقَ : ہرگز نہ چیر ڈالے گا الْاَرْضَ : زمین وَلَنْ تَبْلُغَ : اور ہرگز نہ پہنچے گا الْجِبَالَ : پہاڑ طُوْلًا : بلندی
اور زمین پر اکڑ کر (اور تن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ جائے گا۔
آیت نمبر 37 تا 38 اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : ولا تمش فی الارض مرحًا یہ غرور اور تکبر سے نہی ہے اور تواضع اور انکساری کا حکم ہے۔ المرح کا معنی ہے بہت زیادہ خوشی اور فرحت کا اظہار کرنا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی چلنے میں تکبر کا اظہار کرنا (یعنی اکڑ کر چلنا) ہے۔ بعض نے کہا ہے : انسان کا اپنی قدر اور مقام سے تجاوز کرجانا ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : اس سے مرادچال میں غرور اور خودپسندی کا اظہار کرنا ہے : اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی کسی نعمت پر اترانا اور اسکا شکرادا نہ کرنا ہے اور اکڑنا ہے۔ بعض نے کہا ہے : اس سے مراد نشاط اور چستی کا اظہار کرنا ہے۔ یہ تمام اقوال معنوی اعتبار سے قریب قریب ہیں لیکن یہ دو قسموں میں منقسم ہیں : ان میں سے ایک قسم مذموم (قابل مذمت) ہے اور دوسری محمود (قابل تعریف) ہے، پس تکبر کرنا، اترانا، غرور کرنا، اور انسان کا اپنی قدر سے تجاوز کرنا یہ سب مذموم ہے اور مذموم ہے اور فرحت و انبساط اور نشاط وچستی کا اظہار کرنا محمود اور اچھا ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان دو میں سے ایک کے ساتھ (یعنی فرحت اور نشاط) اپنے آپ کو متصف فرمایا ہے، پس صحیح حدیث میں ہے اللہ أفرح بتوبۃ العبد من رجل۔۔۔ الحدیث (اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے اس آدمی کی نسبت زیادہ خوش ہوتا ہے) ۔ اور سستی شرعاً مذموم ہے اور نشاط اس کی ضد ہے۔ اور کبھی تکبر اور جو چیزیں اس کے معنی میں ہیں محمود اور اچھی ہوتی ہیں، اور وہ یہ کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور ظالموں کے خلاف ہوں۔ ابوحاتم محمد بن حبان نے ابن جابر بن عتیک سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسند روایت بیان کی ہے کہ آپ محمد ﷺ نے فرمایا :” غیرت میں سے وہ بھی جسے اللہ تعالیٰ مبغوض اور ناپسند جانتا ہے اور وہ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور غرور اور تکبر میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ عزوجل پسند فرماتا ہے اور اس میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ مبغوض قرار دیتا ہے، پس وہ غیرت جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے وہ وہ غیرت ہے جو دین کے بارے میں ہو اور وہ غیرت جسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ غیرت ہے جو دین کے معاملہ میں نہ ہو اور وہ عونت وتکبر جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ آدمی کا جنگ کے وقت اور صدقہ دیتے وقت اپنے نفس کے ساتھ اظہار فخر کرنا ہے اور وہ تکبر و غرور جسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ باطل اور غلط کاموں میں اس کا غرور اور تکبر کرنا ہے “۔ اسے ابوداؤد نے اپنی مصنف وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ اور انہوں نے یہ اشعار کہے ہیں : ولا تمش فوق الأرض إلا تواضعا فکم تحتھا قوم ھمومنک أرفع توزمین کے اوپر تواضع اور انکساری کے بغیر نہ چل پس اس کے نیچے کتنی قومیں ہیں جو تجھ سے بلند اور ارفع تھیں۔ و إن کنت فی عز و حرز و منعۃ فکم مات من قوم ھم منک أمنع اور اگر تو عزت، حفاظت اور قوت میں ہے، تو قوم میں سے کتنے مرگئے جو تجھ سے زیادہ محفوظ اور طاقتور تھے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ انسان کا بغیر حاجت کے محض برتری اور غلبے کے اظہار کے لئے شکار کرنا بھی اس آیت میں داخل ہے، اس میں حیوان کو عذاب دینا اور اسے جاری رکھنا بغیر کسی حاجت اور مقصد کے وہ بھی داخل ہے۔ اور رہا وہ آدمی جو کسی دن اور اس دن کی کسی ساعت و سکون حاصل کرتا ہے، اور اس میں وہ اپنے آپ کو اس مقابلے اور راحت میں قوت و طاقت باہم پہنچاتا ہے تاکہ وہ اس کے سبب نیکی اور خیر میں مشغول رہنے کے لئے مدد حاصل کرسکے، مثلاً علم پڑھنا یا نماز پڑھنا وغیرہ، تو یہ اس آیت میں داخل نہیں ہے قولہ تعالیٰ : مرحًا جمہور کی قرأت را کے فتحہ کیساتھ ہے۔ اور اس میں ایک گروہ کی قرأت جسے یعقوب نے بیان کیا ہے وہ اسم فاعل ہو نیکی بنا پر را کے کسرہ کیساتھ ہے۔ اور پہلی زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ بلاشبہ تیرا یہ قول : جاء زید رکضًا تیرے قول جاء زید راکضا کی نسبت زیادہ بلیغ ہے، پس اسی طرح تیرا قول : مرحا بھی ہے۔ اور المرح مصدر ہے لہٰذا اس میں مرحا کہنے کی نسبت مبالغہ زیادہ ہے مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : انک لن تخرق الارض یعنی تو ہر گز زمین کے اندر داخل نہیں ہوسکتا کہ تو اسے جان لے جو کچھ اس میں ہے۔ ولن تبلغ الجبال طولا یعنی تو ہرگز پہاڑوں کے برابر نہیں ہوسکتا نہ اپنی طوالت ولمبائی کے ساتھ اور نہ اپنے فخر وتکبر کے ساتھ۔ اور کہا جاتا ہے : خرق الثوب یعنی اس نے کپڑا پھاڑ دیا، اور خرق الارض اس نے زمین کاٹ دی۔ اور الخرق سے مراد زمین کی کشادگی ہے۔ یعنی تو اپنے تکبر اور زمین پر چلنے کے ساتھ زمین کو کشادہ نہیں کرسکتا، یعنی تو اپنی قدرت کے ساتھ اس مقام اور حد تک نہیں پہنچ سکتا، بلکہ تو تو ذلیل اور حقیر بندہ ہے، تو اپنے نیچے اور اپنے اوپر سے ہر طرف سے گھرا ہوا ہے، اور جو گھرا ہوا ہو وہ محصور اور ضعیف ہوتا ہے، پس تیرے لئے تکبر اور رعونت مناسب اور موزوں نہیں ہے، اور یہاں خرق الارض سے مراد زمین کو نقب لگانا، اس کو پھاڑنا ہے نہ کہ اسے مسافت کے ساتھ طے کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور ازہری (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے وہ ہرگزا سے کاٹ نہیں سکتا۔ نحاس نے کہا ہے : یہ زیادہ بین اور واضح ہے، کیونکہ یہ الخرق سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد وسیع صحرا ہے۔ اور کہا جاتا ہے : فلاں أخرق من فلان، یعنی فلاں سفر، عزت اور قوت کے اعتبار سے فلان سے زیادہ ہے۔ اور روایت کیا جاتا ہے کہ سبا نے اپنے لشکروں کے ساتھ زمین کے شرق وغرب اور اس کے میدانوں اور پہاڑوں کا چکر لگایا اور بڑے بڑے سرداروں کو قتل کیا اور قیدی بنایا۔۔۔۔ اور اسی وجہ سے اس کا نام سبارکھا گیا۔۔۔ اور مخلوق خدا اس کے قریب ہوگئی پس جب اس نے دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے تین دن الگ اور خلوت میں رہا پھر ان کی طرف نکلا تو کہا : بلاشبہ جو میں نے پایا ہے وہ کوئی بھی نہیں پاسکا میں نے ان تعمتوں کے شکر کے سبب ابتدا کو دیکھ لیا ہے، اور میں نے اس میں سورج سے زیادہ سجود کا اہل کوئی نہیں دیکھا جب وہ طلوع ہوتا ہے، نیتجاً انہوں نے ا سے سجدہ کیا اور یہی سورج کی عبادت اور پرستش کا آغاز ہے، پس یہی غرور، تکبر اور اکڑنے والوں کا انجام ہے۔ نعوذباللہ من ذالک۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ قولہ تعالیٰ : کل ذٰلک کان سیئہ عند ربک مکروھًا، ذٰلک یہ اشارہ امرونہی میں سے اس تمام کی طرف ہے جس کا ذکر پہلے گزرچکا ہے۔ اور ذٰلک واحد، جمع اور مونث ومذکر سبھی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عاصم، ابن عامر، حمزہ، کسائی اور مسروق رحمہم اللہ تعالیٰ نے سیئہ، سیء کو ضمیر کی طرف مضاف کرکے پڑھا ہے، اور اسی لئے فرمایا : مکرؤھا یہ کان کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور السیء سے مراد مکروہ (اور ناپسندیدہ) عمل ہے۔ اور یہ وہ ہوتا ہے جس سے ط نہ اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور نہ اس کے بارے حکم دیتا ہے۔ تحقیق اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں یعنی وقضٰی ربک سے لے کر۔۔۔ تاقولہ۔۔۔۔ کان سیئہ کچھ وہ امور ذکر کئے ہیں جن کے بارے حکم دیا گیا ہے اور کچھ وہ ہیں جن سے منع کیا گیا ہے۔ پس وہ سیئۃ سے ان تمام کے بارے خبر دے رہا کہ مامور بہ بھی منھی عنہ امور میں داخل ہوجائیں۔ اس قرأت کو ابوعبید نے اختیار کیا ہے، کیونکہ حضرت ابی ؓ کی قرأت میں ذالک کان سیئاتہ ہے۔ اور یہ اضافت کے لئے ہی ہوتا ہے۔ ابن کثیر، نافع، اور ابوعمرو نے سیئۃ تنوین کے ساتھ پڑھا ہے یعنی ہر وہ عمل جس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے وہ اسی بنا پر کلام باری تعالیٰ : واحسن تاویلا پر منقطع ہوگئی۔ پھر فرمایا : ولا تقف مالیس لک بہٖ علم، ولا تمش، پھر کہا : کل ذٰلک کان سیئہ تنوین کے ساتھ کہا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک قول باری تعالیٰ : ولا تقتلوٓا اولادکم سے لے کر اس آیت تک یہ سیئہ ہی ہے اس میں کوئی حسنہ اور نیکی نہیں ہے، پس انہوں نے کلا کو صرف منھی عنہ کے لئے محیط بنایا ہے نہ کہ کسی اور کے لئے۔ اور قول باری تعالیٰ : مکروھًا۔ سیئہ کی صفت نہیں ہے، بلکہ یہ اس سے بدل ہے اور تقدیر کلام ہے : کان سیئۃ وکان مکروھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مکروھا کان کی دوسری خبر ہے اس لئے کہ اسے لفظ کل پر محمول کیا گیا ہے، اور سیئۃ اس سے پہلے مذکورہ تمام اشیاء میں معنی پر محمول ہے۔ اور ان میں سے بعض نے کہا ہے : یہ سیئۃ کی صفت ہے، کیونکہ جب اس کی تانیث مونث غیر حقیقی ہے تو پھر جائز ہے کہ مذکر کیساتھ اس کی صفت لگائی جائے۔ اور ابوعلی فارسی (رح) نے ا سے ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے : بیشک مونث کو جب مذکربنایا جائے تو پھر یہ چاہئے کہ اس کا مابعد بھی مذکر ہو، اور یہ تساہل اور سستی ہے کہ پہلے وہ فعل ہو جو مونث کی طرف منسوب ہو اور وہ ایسے صیغہ میں ہو جو مذکر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ کیا آپ شاعر کا یہ قول نہیں دیکھتے : فلا مزنۃ ودقت ودقھا ولأارض أبقل إنقالھا یہ ان کے نزدیک سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی کہنے والا کہے : أبقل أرض تو یہ قبیح نہیں ہے۔ ابوعلی نے کہا ہے : لیکن قول باری تعالیٰ : مکروھًا میں یہ جائز ہے کہ وہ سیئہ سے بدل ہو۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ اس ضمیر سے حال ہو جو عندربک میں ہے اور عند ربک، سیئۃ کی صفت کے محل میں ہو۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ علماء نے اس آیت سے رقص اور اس میں مشغول ہونے کی مذمت پر استدلال کیا ہے۔ امام ابوالوفاء ابن عقیل نے بیان کیا ہے : رقص سے نہی پر قرآن کریم نے نص بیان کی ہے اور فرمایا : ولا تمش فی الارض مرحا اور اکڑنے والے کی مذمت بیان کی ہے۔ اور رقص شیدید ترین غرور کرنا اور اترانا ہے۔ کیا ہم وہ نہیں ہیں جنہوں نے نیند کو خمر پر قیاس کیا ہے اس لئے کہ یہ دونوں چستی اور نشہ لانے میں باہم متفق ہیں، تو ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ شعر کی کاٹ اور اس کو ترنم اور سر کے ساتھ کہنے کو آلات موسیقی ستار، بانسری اور طبلے پر ان دونوں کے اجتماع اور اتفاق کے باوجود قیاس نہیں کرتے۔ تو یہ صاحب ریش سے کتنا قبیح ہے اور کیسا لگتا ہے جب وہ بوڑھاہو، اور وہ اس سر اور کاٹ پر رقص کررہا ہو اور تالی بجارہا ہو، اور بالخصوص اس وقت جبکہ اس وقت جبکہ عورتوں اور مردوں کی آوازیں ہوں، کیا یہ اس کے لئے اچھا لگتا ہے جس کے سامنے موت، سوال، حشر اور پل صراط ہو، پھر وہ دارین میں سے ایک کی طرف جانے والا ہو، وہ رقص کے ساتھ جانوروں کے اچھلنے کی طرح اچھلتا کو دتا ہے، اور عورتوں کے تالی بجانے کی طرح تالی بجاتا ہے۔ قسم بحدا ! میں نے اپنی عمریں کئی مشائخ کو دیکھا ہے کہ تبسم کے سبب ان کا کوئی دانت ظاہر نہیں ہوا چہ جائیکہ ضحک کے سبب ظاہر ہو اس کے باوجود کہ میرا ان کے ساتھ اختلاط اور میل جول ہمیشہ رہا۔ اور ابوالفرج علامہ ابن جوزی (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : بعض مشائخ نے امام غزالی (رح) کے بارے میں مجھ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ رقص دو کندھوں کے درمیان حماقت ہے اور یہ لعب کے بغیر زائل نہیں ہوتی اس باب کا مزید بیان سورة الکہف وغیرہ میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top