Al-Qurtubi - Al-Israa : 35
وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا
وَاَوْفُوا : اور پورا کرو الْكَيْلَ : پیمانہ اِذَا كِلْتُمْ : جب تم ماپ کر دو وَزِنُوْا : اور وزن کرو تم بِالْقِسْطَاسِ : ترازو کے ساتھ الْمُسْتَقِيْمِ : سیدھی ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور سب سے اچھا تَاْوِيْلًا : انجام کے اعتبار سے
اور جب (کوئی چیز) ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کردو) تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔
آیت نمبر 35 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : واوفوا الکیل اذا کلتم اس کے بارے کلام سورة الانعام میں گزر چکی ہے۔ اور یہ آیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ کیل (ماپ) کرنا بائع کے ذمہ ہے، یہ سورة یوسف میں گزر چکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اور القسطاس (قاف کے ضمہ اور کسرہ کیساتھ) سے مراد میزان (ترازو) ہے اور یہ لغت روم کا لفظ ہے : یہ ابن عزیز نے کہا ہے۔ اور زجاج نے کہا ہے : القسطاس، ترازو چھوٹا ہو یا بڑا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : القسطاس سے مراد عدل کرنا ہے۔ اور آپ فرماتے تھے : یہ لغت رومیہ سے ہے، گویا کہ لوگوں کو کہا گیا ہے : اپنے وزنوں میں عدل کرتے ہوئے وزن کرو۔ اور ابن کثیر، ابو عمرو، نافع، ابن عامر اور عاصم نے ابوبکر کی روایت میں القسطاس قاف کے کسرہ کیساتھ روایت کیا ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : ذٰلک خیرواحسن تاویلا یعنی پورا پورا ماپ کرنا اور صحیح صحیح وزن کرنا تیرے رب کے نزدیک بہتر اور زیادہ باعث برکت ہے۔ واحسن تاویلا اور اسکا انجام بھی بہت اچھا ہے۔ حسن نے کہا ہے : ہمارے لئے ذکر کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی حرام پر قادر نہیں ہوتا پھر وہ اسے چھوڑ دیتا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے تو اللہ تعالیٰ اسے آخرت سے پہلے دنیا میں جلدی ملنے والی نعمت کیساتھ بدل دیتا ہے جو اس کے لئے اس (حرام) سے بہتر ہوتی ہے۔
Top