Al-Qurtubi - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بےحیائی اور بری راہ ہے
آیت نمبر 32 اس میں ایک مسئلہ ہے : مسئلہ نمبر 1 ۔ علماء نے کہا ہے : قول باری تعالیٰ : ولا تقربوا الزنی یہ ولا تزنوا کہنے سے زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ اس کا معنی ہے تم بدکاری کے قریب نہ جاؤ۔ اور الزنی کے لفظ میں مد اور قصر دونوں لغتیں ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : جانت فریضۃ ما تقول کما کان الزناء فریضۃ الرجم اور سبیلا تمیز کی بناء پر منصوب ہے : تقدیر کلام ہے : وساء سبیلہ سبیلاً (اور اس کا راستہ بہت ہی براراستہ ہے) یعنی کیونکہ یہ جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔ اور زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور اس میں اور اس کی قبح میں کوئی اختلاف نہیں ہے بالخصوص جب یہ پڑوسی کی بیوی کیساتھ ہو، اس سے غیر کے بچے کو خادم اور نائب بنانا ہوتا ہے اور اسے ہی بیٹا بنانا ہوتا ہے اور علاوہ ازیں اسے میراث سے حصہ دیا جاتا ہے اور پانیوں کے اختلاط کے سبب نسبوں میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور صحیح میں روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ باب فسطاط پر ایک حاملہ عورت کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا : ” شاید وہ چاہتا ہے کہ وہ اس سے وطی کرے “۔ تو لوگوں نے عرض کی : جی ہاں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تحقیق میں نے قصد کیا ہے کہ میں اس پر لغت بھیجوں جو اس کی قبر میں اسکے ساتھ داخل ہو وہ کیسے اسے وارث بنائے گا حالانکہ وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگا کیسے اس سے خدمت لے گا حالانکہ وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگا ؟
Top