Al-Qurtubi - Al-Israa : 111
وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا۠   ۧ
وَقُلِ : اور کہ دیں الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے لَمْ يَتَّخِذْ : نہیں بنائی وَلَدًا : کوئی اولاد وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهٗ : اس کے لیے شَرِيْك : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهٗ : اس کا وَلِيٌّ : کوئی مددگار مِّنَ : سے۔ سبب الذُّلِّ : ناتوانی وَكَبِّرْهُ : اور اس کی بڑائی کرو تَكْبِيْرًا : خوب بڑائی
اور کہو کہ سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز و ناتواں ہے کوئی اس کا مددگار ہے اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو۔
آیت نمبر 111 قولہ تعالیٰ : وقل الحمدللہ الذی لم یتخذ ولدا یہ آیت یہود و نصاریٰ اور عربوں کے مختلف اقوال کا رد کر رہی ہے : کہ حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ اور ملائکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذریت اور اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ایسے اقوال سے پاک اور برتر ہے : ولم یکن لہ شریک فی الملک چونکہ وہ واحد اور یکتا ہے لہٰذا اس کی حکومت اور اس کی عبادت میں کوئی شریک نہیں۔ ولم یکن لہ ولی من الذل حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اس نے کسی کو حلیف نہیں بنایا اور نہ کسی کی مدد چاہی ہے، یعنی اس کا کوئی مددگار نہیں جو اسے درماندگی سے پناہ دیتا ہو کہ وہ اس کا دفاع کرنے والا ہو۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : یہود و نصاری میں سے اس کا کوئی ولی اور مددگار نہیں کیونکہ وہ لوگوں میں سے ذلیل ترین ہیں، (گویا) یہ ان کے اس قول کا رد ہے : نحن ابنؤا اللہ واحبآؤہ (المائدہ : 18) (ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں) ۔ اور حسن بن فضل نے کہا ہے : ولم یکن لہ ولی من الذل یعنی وہ (کمزور) اور درماندہ نہیں کہ وہ کسی ولی اور مددگار کا محتاج ہو اور نہ اس کی عزت وکبریائی کیلئے کوئی ناصر اور معاون ہے۔ وکبرہ تکبیرا یعنی مکمل طور پر اس کی عظمت و بڑائی بیان کرو۔ اور کہا جاتا ہے : عرب کلام میں تعظیم و اجلال کے معنی میں بلیغ ترینب الفاظ اللہ اکبر ہیں، یعنی اس کا وصف اس سے بیان کرو کہ وہ ہر شی سے بڑا اور عظیم ہے۔ جیسا کہ شاعر نے بھی کہا ہے : رأیت اللہ اکبر کل شئ محاولۃ و أکثرھم جنودا میں نے یقین کیا کہ اللہ تعالیٰ ازروئے قصد و ارادہ کے ہر شے سے بڑا اور عظیم ہے اور ازروئے لشکر کے سب سے زیادہ اور کثیر ہے۔ اور حضور بنی کریم ﷺ جب نماز میں شروع ہوتے تھے تو کہتے : اللہ اکبر اور یہ کتاب کے شروع میں گزر چکا ہے۔ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا ہے : بندے کا اللہ اکبر کہنا ونیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ اور یہی آیت تورات کا خاتمہ ہے۔ مطرف نے عبد اللہ بن کعب سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا تو رات کا آغاز سورة الانعام کے آغاز (یعنی پہلی آیت) سے ہے اور اس کا اختتام اس سورت کے خاتمہ کے ساتھ ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ یہ عزت اور غلبے والی آیت ہے ؛ اسے حضرت معاذ بن جبل ؓ نے حضور بنی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور عمرو بن شعیب نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کیا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ حضور بنی مکرم ﷺ بنی عبد المطلب میں سے جب کوئی بچہ فصیح بولنے لگتا تو آپ اسے یہ آیت سکھا دیتے تھے وقل الحمدللہ الذی الآیہ۔ اور عبد الحمید بن واصل نے کہا ہے : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ” جس نے وقل الحمدللہ الآیہ پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے لئے زمین اور پہاڑوں کی مثل اجر لکھ دے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے فرماتا ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہے تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھدا۔ (مریم) (قریب ہے آسمان شق ہوجائیں اس (خرافات) سے اور زمین پھٹ جائے اور پہاڑ گر پڑیں لرزتے ہوئے) ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کو حکم ارشاد فرمایا جس نے آپ سے قرض کے بارے شکایت کی کہ وہ قل ادعوا اللہ اوادعوا الرحمن آخر سورة تک پڑھے اور پھر تین بار یہ کہے۔ توکلت علی الحی الذی لایموت۔
Top