Al-Qurtubi - Al-Israa : 109
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩  ۞
وَيَخِرُّوْنَ : اور وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل يَبْكُوْنَ : روتے ہوئے وَيَزِيْدُهُمْ : اور ان میں زیادہ کرتا ہے خُشُوْعًا : عاجزی
اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرپڑتے ہیں (اور) روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے۔
آیت نمبر 109 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ویخرون للاذقان یبکون یہ ان کی صفت کے بیان میں مبالغہ اور ان کی مدح ہے۔ اور ہر وہ آدمی جس کی پہچان علم کے ساتھ ہے اور اس نے اس سے کچھ حاصل کیا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس مرتبہ پر فائز ہو، اور وہ قرآن کریم کے سماع کے وقت خشوع، تواضع اور عاجزی کا اظہار کرے۔ اور مسند دارمی ابو محمد میں تیمی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جسے علم عطا کیا گیا جس نے اسے نہ رلایا تو زیادہ لائق اور مناسب ہے کہ اسے علم عطا نہ ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علماء کی صفت یہ بیان فرمائی ہے، پھر یہی آیت تلاوت کی۔ اسے علامہ طبری نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور الاذقان، ذقن کی جمع ہے، اور یہ دو جبڑوں کو مجتمع ہے۔ اور حسن نے کہا ہے : الاذقان یہ ڈاڑھی سے عبارت ہے، یعنی وہ اسے سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھ دیتے ہیں۔ اور یہ حددرجہ تواضع ہے۔ اور اس میں لام بمعنی علی ہے ؛ آپ کہتے ہیں : سقط لفیہ ای علی فیہ (وہ منہ کے بل گرا) ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : یخرون للاذقان سجدا یعنی وہ مونہوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اذقان (ٹھوڑیوں) کو خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ ٹھوڑی انسان کے منہ سے قریب تر شے ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : ٹھوڑی پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہوتا، کیونکہ یہاں ذقن سے مراد الوجہ (چہرہ) ہے، اور کبھی ایک شے کو اپنے مجاور (پڑوس والی شے) سے اور کل کو بعض کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے، پس کہا جاتا ہے : خر لوجھہ ساجدا (وہ اپنے چہرے کے بل سجدے میں گرگیا ) اگرچہ اس نے اپنے رخساروں اور اپنی آنکھوں پر سجدہ نہیں کیا۔ کیا تو اس قول کی طرف نہیں دیکھتا) ۔ فخر صریعا للیدین وللفم تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے منہ اور ہاتھوں کے بل گر پڑا۔ مسئلہ نمبر 2: قولہ تعالیٰ : یبکون حالت نماز میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے کے جائز ہونے پر دلیل ہے، اور اللہ تعالیٰ کے دین میں اپنی معصیت پر رونے کے جواز پر دلیل ہے، اور یہ کہ یہ نہ نماز کو توڑتا ہے اور نہ اسے کوئی نقصان پہنچاتا ہے۔ حضرت ابن مبارک نے حماد بن سلمہ سے انہوں نے ثابت بنانی سے انہوں نے مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کے سبب آپ کے پیٹ میں اس طرح کھولنے کی آواز آرہی تھی جیسے ہانڈی کے کھولنے کی آواز آتی ہے۔ اور ابو داؤد کی کتاب میں ہے : رونے کے سبب آپ کے سینے میں اس طرح کی آواز تھی جیسے چکی کی آواز ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 3: کر اہنے کے بارے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے، پس امام مالک (رح) نے کہا ہے : کراہنا مریض کی نماز کو نہیں توڑتا، اور آپ نے صحت مند آدمی کے لئے کراہنا مکروہ قرار دیا ہے ؛ اور یہی ثوری (رح) نے کہا ہے۔ اور ابن الحکم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے : کھا نسنا، کراہنا اور پھونک مارنا نماز کو نہیں توڑتا۔ اور ابن القاسم نے کہا ہے : اسے توڑ دیتا ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اگر اس کے حروف ہوں جو سنے اور سمجھے جاسکتے ہوں تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : اگر اس کا کراہنا اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہو تو نماز نہیں ٹوٹے گی، اور اگر درد کی وجہ سے ہو تو نماز کو توڑ دیتا ہے۔ اور امام ابو یوسف (رح) سے روایت ہے کہ اس کی نماز ان تمام صورتوں میں مکمل ہے ؛ کیونکہ کوئی مریض اور ضعیف آدمی کر اہنے سے خالی نہیں ہوتا۔ مسئلہ نمبر 4: قولہ تعالیٰ : ویزیدھم خشوعا خشوع کے بارے میں گفتگو سورة البقرہ میں گزر چکی ہے اور مزید آگے آئے گی۔
Top