Al-Qurtubi - Al-Israa : 101
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دیں مُوْسٰي : موسیٰ تِسْعَ : نو اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : کھلی نشانیاں فَسْئَلْ : پو پوچھ تو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اِذْ : جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا فَقَالَ : تو کہا لَهٗ : اس کو فِرْعَوْنُ : فرعون اِنِّىْ : بیشک میں لَاَظُنُّكَ : تجھ پر گمان کرتا ہوں يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ مَسْحُوْرًا : جادو کیا گیا
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔
آیت نمبر 101 قولہ تعالیٰ : ولقد اتینا موسیٰ تسع ایٹ بینت ان آیات میں اختلاف ہے، پس یہ کہا گیا ہے کہ یہ کتاب کی آیات کے معنی میں ہیں، جیسا کہ ترمذی اور نسائی نے صفوان بن عسال مرادی سے روایت کیا ہے کہ وہ یہودی تھے ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی کو کہا : ہمارے ساتھ چلو اس نبی کے پاس ہم اس سے کچھ سوال کرتے ہیں، تو اس نے کہا : تو اسے نبی نہ کہہ کیونکہ اگر اس نے ہمیں سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہوجائیں گی (یعنی وہ بہت زیادہ خوش ہوجائے گا) ، پس وہ دونوں حضور نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ سے اس قول باری تعالیٰ کے بارے پوچھا : ولقد اتینا موسیٰ تسع ایت بینت تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نہ زنا کرو، حق کے سوا کسی ایسے نفس کو قتل نہ کرو جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، اور کسی بری الذمہ آدمی کو حاکم کی طرف لے کر نہ چلو کہ وہ اسے قتل کر دے، سود نہ کھاؤ، کسی پاکدامن عورت پر تہمت اور بہتان نہ لگاؤ اور میدان جہاد میں لشکر سے نہ بھاگو۔۔۔ شعبہ کو شک ہے۔۔ اے گروہ یہود ! تم پر خاص طور پر یہ لازم ہے کہ ہفتہ کے دن حد سے تجاوز نہ کرو “۔ پس ان دونوں نے آپ کے ہاتھ اور پاؤں کو بو سے دئیے اور کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ فرمایا : ” کون سی چیز تم دونوں کو روک رہی ہے کہ تم اسلام لے آؤ “۔ ان دونوں نے کہا : بیشک حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں مسلسل نبی رہے اور بلاشبہ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اسلام لے آئے تو یہودی ہمیں قتل کردیں گے۔ ابو عیسیٰ نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیات سے مراد معجزات اور دلائل ہیں۔ حضرت ابن عباس اور ضحاک نے کہا ہے : تو نشانیاں یہ ہیں عصا مبارک، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، لسان، سمندر، طوفان، مکڑمی، قمل (جوئیں) مینڈک اور خون ؛ یہ مفصل علامات اور نشانیاں ہیں۔ حسن اور شعبی نے کہا ہے : پانچ سورة الاعراف میں مذکور ہیں، یعنی طوفان اور جو اس پر معطوف ہے، یدبیضاء، عصا، قحط سالی اور پھلوں میں نقصان اور کمی۔ اور اسی طرح حسن سے مروی ہے، مگر یہ قحط سالی اور پھلوں میں کمی کو ایک بناتے ہیں، اور نویں علامت عصا مبارک کا پھینکی جانے والی رسیوں کو (جھوٹ کے سانپ) جلدی سے نگل جانے کو قرار دیتے ہیں، اور اسی طرح امام مالک (رح) سے منقول ہے، مگر یہ کہ انہوں نے قحط سالی اور پھلوں میں نقصان کی جگہ سمندر اور پہاڑ کو رکھا ہے۔ اور محمد بن کعب نے کہا ہے : یہ وہی پانچ ہیں جو سورة الاعراف میں ہیں اور سمندر، عصا، پتھر اور ان کے مالوں کو مٹا دینا۔ ان آیات کی مکمل شرح پہلے گزر چکی ہے والحمد للہ۔ فسئل بنی اسرائیل اذ جآءھم یعنی اے محمد ! آپ ان سے پوچھئے جب موسیٰ (علیہ السلام) ان نشانیوں اور علامات کے ساتھ ان کے پاس آئے، جیسا کہ اس کا بیان سورة یونس میں گزر چکا ہے۔ اور یہ سوال برائے استفہام ہے تاکہ یہودی اس کی صحت کو جان لیں جو کچھ حضرت محمد ﷺ کہہ رہے ہیں۔ فقال لہ فرعون انی لا ظنک یموسی مسحورا یعنی آپ تو اپنے افعال کی ندرت اور غرابت کے ساتھ جادو کرنے والے ہیں، یہ فراء اور ابو عبیدہ نے کہا ہے۔ پس اس میں مفعول کو فاعل کی جگہ رکھا گیا ہے، جیسے تو کہتا ہے : ھذا مشئوم ومیمون، ای شائم ویامن (یہ نحوست ڈالنے والا، اور یہ مبارک بنانے والا ہے) ، (یعنی اس میں مفعول کو فاعل کی جگہ رکھا گیا ہے) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی مخدوعا (جس کو دھوکہ دیا گیا ہو) ۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہ بمعنی مغلوبا ہے (جس پر غلبہ پالیا گیا ہو) ؛ یہ مقاتل نے کہا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں، اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ اور ابو نہیک سے روایت ہے کہ ان دونوں نے اسے : فسال بنی اسرائیل خبر کی صورت میں پڑھا ہے، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ وہ بنی اسرائیل کو آزاد کر دے اور ان کا راستہ چھوڑ دے اور وہ انہیں آپ کے ساتھ بھیج دے۔
Top