Al-Qurtubi - Al-Hijr : 80
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ
وَلَقَدْ كَذَّبَ : اور البتہ جھٹلایا اَصْحٰبُ الْحِجْرِ : حجر والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔
آیت نمبر 80 الحجر کا اطلاق کئی معانی پر ہوتا ہے : اس میں سے ایک حجر الکعبہ ہے، ایک الحرام ہے ؛ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : حجرا محجورا۔ (الفرقان) یعنی حرام جو کہ حرام کیا گیا ہے۔ اور الحجر کا معنی عقل ہے ؛ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : لذی حجر (صاحب عقل کے لئے) اور الحجر کا معنی حجر القمیص (قمیص کی بلکھی) ہے ؛ اور فتحہ زیادہ فصیح ہے۔ اور الحجر کا معنی گھوڑی بھی ہے۔ اور الحجر سے مراد دیا ثمور بھی ہیں۔ اور یہاں یہی مراد ہیں، یعنی (قوم ثمود کا شہر) ؛ یہ ازہری نے کہا ہے۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : یہ وہ ہے جو مکہ مکرمہ اور تبوک کے درمیان ہے، اور یہی وہ وادی ہے جس میں ثمود آباد تھے۔ علامہ طبری نے کہا ہے : یہ وہ زمین ہے جو حجاز اور شام کے درمیان ہے، اور وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی اور ارشاد فرمایا : المرسلین تو اس سے مراد اکیلے حضرت صالح (علیہ السلام) ہیں، لیکن جس نے ایک نبی (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو تحقیق اس نے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلا دیا ؛ کیونکہ وہ تمام اصول میں ایک ہی دین پر ہیں، لہٰذا ان کے درمیان تفریق جائز نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) ، ان کی اتباع کرنے والوں، اور آپ سے پہلے آنے والے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو بھی جھٹلا دیا۔ واللہ اعلم۔ امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ تبوک کے درمیان حجر کے مقام پر اترے تو آپ ﷺ نے تمام صحابہ کرام کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اس کے کنوئیں سے نہ پانی پئیں اور نہ اس سے پانی لیں۔ تو انہوں نے عرض کی : ہم نے تو اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور ہم نے مشکیزے بھرلئے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم ارشاد فرمایا کہ وہ پانی بہا دیں اور وہ آٹا بھی پھینک دیں۔ اور حضرت ابن عمر ؓ سے صحیح روایت میں ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ثمود کی زمین الحجر پر اترے، انہوں نے وہاں کے کنوؤں سے پانی بھر لیا اور اس کے ساتھ آٹا وغیرہ گوندھ لیا، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم ارشاد فرمایا کہ جو انہوں نے پانی لیا ہے وہ اسے بہا دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلا دیں، اور آپ ﷺ نے انہیں حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اس کنوئیں سے پانی لیں جس پر (آپ کی) ناقہ وارد ہوتی۔ اور یہ بھی حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مقام حجر سے گزرے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا : ” تم ان کے گھروں میں داخل نہ ہو جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا مگر اس خوف اور ڈر سے روتے ہوئے کہ کہیں اس کی مثل تمہیں نہ آپہنچے جو عذاب انہیں آپہنچا “۔ پھر آپ نے اپنی ناقہ کو ڈانٹا اور تیز چل پڑے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : پس اس آیت میں وہ چیزیں ہیں جن کا حکم شارع نے بیان کیا ہے اور ان کے حکم کی وضاحت کی ہے اور وہ آٹھ مسائل ہیں، علماء نے ان کا استنباط کیا ہے اور ان میں سے بعض میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 1: پس ان میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ ان جگہوں میں داخل ہونا مکروہ ہے، اور اسی پر بعض علماء نے کفار کے قبرستانوں میں داخل ہونے کو محمول کیا ہے، پس اگر انسان ان جگہوں میں سے کسی میں اور قبرستان میں داخل ہو تو وہ اس طریقہ اور صفت پر ہو جس کی طرف حضور نبی مکرم ﷺ نے راہنمائی فرمائی ہے یعنی عبرت حاصل کرتے ہوئے، خوف کھاتے ہوئے اور انتہائی تیزی کے ساتھ۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم بابل کی زمین میں داخل نہ ہو کیونکہ اس میں لعنت کی گئی ہے “۔ مسئلہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اس پانی کو بہا دینے کا حکم دیا جو انہوں نے ثمود کے کنوئیں سے لیا تھا اور اس آٹے کو پھینک دینے کا حکم دیا جو اس سے گوندھا گیا تھا اور اس سے روٹی پکائی گئی تھی کیونکہ یہ ناراضگی اور سختی والا پانی ہے، پس اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے فرار اختیار کرتے ہوئے اس سے انتفاع جائز نہیں۔ اور فرمایا : ” تم اسے اونٹوں کو کھلا دو “۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اور اسی طرح نجس پانی کا حکم ہے اور اس آٹے کا جو اس سے گوندھا جائے۔ مسئلہ نمبر 2: اور دوسرا یہ ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا : بیشک طعام و شراب میں سے جس کا استعمال جائز نہیں ہوتا اسے اونٹوں اور جانوروں کو کھلانا جائز ہے، جبکہ انہیں تکلیف نہ ہو ؛ اور اسی طرح نجس اور پلید شہد کے بارے میں بھی کہا ہے : بیشک اسے مکھیاں چاٹ سکتی ہیں۔ مسئلہ نمبر 3: تیسرا مسئلہ یہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ آٹا جو اس پانی کے ساتھ گوندھا گیا تھا وہ اونٹوں کو کھلانے کا حکم ارشاد فرمایا، اور اسے اس طرح پھینکنے کا حکم نہیں دیا جیسا کہ خیبر کے دن پالتو گدھوں کا گوشت پھینک دینے کا حکم دیا تھا ؛ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ گدھوں کا گوشت تحریم میں اشد اور نجس ہونے میں زیادہ غلیظ ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے حکام کی کمائی کے بارے حکم دیا کہ وہ اونٹوں اور غلاموں کو کھلا دی جائے، حالانکہ نہ وہ حرام ہے اور نہ نجس ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اگر یہ حرام ہوتی تو آپ اس کے بارے حکم نہ دیتے کہ وہ اسے اپنے غلام کو کھلا دے) ، کیونکہ وہ بھی اس میں عبادت کرنے والا ہے جیسے وہ خود عبادت کرنے والا ہے۔ مسئلہ نمبر 4: چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ۔ حضور نبی مکرم ﷺ کے آٹا اونٹوں کو کھلانے کا حکم دینے میں اس پر دلیل ہے کہ آدمی کے لئے نجاست اٹھا کر اپنے کتے کو ڈالنا جائز ہے تاکہ وہ اسے کھائے ؛ بخلاف ان کے جس نے ہمارے اصحاب میں سے اس کا انکار کیا ہے۔ اور کہا ہے : اس پر کتوں کو چھوڑا جائے گا اور اسے ان کی طرف اٹھایا نہیں جائے گا۔ مسئلہ نمبر 5: پانچواں مسئلہ یہ ہے۔ کہ حضور نبی کریم ﷺ کا اس کنوئیں سے پانی لینے کا حکم دینا جس پر حضرت صالح کی اونٹنی پانی پینے آتی تھی یہ اس پر دلیل ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کے آثار سے برکت حاصل کرنا جائز ہے، اگرچہ ان کا زمانہ کتنا قدیم ہو اور ان کے آثار مخفی ہوں، جیسا کہ پہلے حکم میں فساد برپا کرنے والوں کے بغض اور ان کے گھروں اور ان کے آثار کے مذموم ہونے پر دلیل ہے۔ اس میں تحقیق اگرچہ یہ ہے کہ جمادات پر مؤاخذہ نہیں ہے، لیکن جو چیز محبوب کے ساتھ مل جائے وہ بھی محبوب ہوتی ہے، اور جو مکروہ اور مبغوض کے ساتھ ملی ہوئی ہو وہ مبغوض ہوتی ہے۔ جیسا کہ بہت سے شعراء نے کہا ہے : أحب لحبھا السودان حتی أحب لحبھا سود الکلاب میں اس کی محبت کی وجہ سے سیاہ رنگ کو پسند کرتا ہوں یہاں تک کہ میں اس کی محبت کی وجہ سے سیاہ رنگ کے کتوں کو بھی پسند کرتا ہوں۔ اور اسی طرح ایک دوسرے نے کہا ہے : أمر علی الدیار دیار لیلی أقبل ذا الجدار و ذا الجدار میں دیار لیلیٰ سے گزرتا ہوں اور ان کی ہر ہر دیوار کو بو سے دیتا ہوں۔ وما تلک الدیار شغفن قلبی ولکن حب من سکن الدیارا ان گھروں کی محبت میرے دل پر غالب نہیں ہے لیکن ان گھروں کے مکین کی محبت مجھ پر غالب ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اور چھٹا مسئلہ یہ ہے :۔ بعض علماء نے ایسی جگہ نماز پڑھنے سے منع کیا ہے : اس میں نماز جائز نہیں ہوتی کیونکہ وہ ناراضگی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہونے کا ٹکڑا ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : پس یہ علاقہ حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے مستثنیٰ ہوگیا : ” میرے لئے زمین مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی “۔ پس وہاں کی مٹی سے تیمم جائز نہ ہوگا اور نہ اس کے پانی سے وضو جائز ہوگا اور نہ اس میں تمام جائز ہوگی۔ اور ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سات جگہوں میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے : کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ میں، جانور ذبح کرنے کی جگہ میں، قبرستان میں، ہلاک کرنے والی آفت کی جگہ میں، حمام میں، اونٹ باندھنے کی جگہ میں، اور بیت اللہ شریف کے اوپر۔ اور اس باب میں حضرت ابو مرثد، حضرت جابر اور حضرت انس ؓ سے بھی روایات منقول ہیں۔ اور حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث کی سند اتنی زیادہ قوی نہیں ہے کیونکہ زید بن جبیرہ میں ان کے حافظہ کے بارے کلام کی گئی ہے، اور ہمارے علماء نے یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ مغصوبہ گھر میں، عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں، اور اس مکان میں جس میں تصویریں اور بت پڑیں ہوں، غصب کی ہوئی زمین میں یا ایسی جگہ جس میں تیرا منہ سونے والے آدمی کی طرف ہو یا کسی آدمی کے چہرے کی طرف ہو یا ایسی دیوار پر جس پر نجاست ہو۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : ان جگہوں میں سے بعض وہ ہیں جن میں غیر کا حق ہونے کی وجہ سے نماز سے منع کیا گیا ہے، اور بعض وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے منع کیا گیا ہے، اور بعض وہ ہیں جن میں نجاست کے مکمل طور پر موجود ہونے یا اس کے غالب ہونے کی وجہ سے نماز سے منع کیا گیا ہے، پس وہ جگہیں جن میں نجاست کی وجہ سے نماز سے منع کیا گیا ہے اگر اس میں پاک کپڑا بچھا دیا جائے جیسا کہ حمام اور قبرستان میں یا اس کی طرف تو بیشک وہ جائز ہے (یہ) مدونہ میں ہے۔ اور ابو مصعب نے اس کے بارے کراہت کا ذکر کیا ہے۔ اور ہمارے علماء نے پرانے اور نئے قبرستان کے درمیان نجاست کی وجہ سے فرق کیا ہے، (اسی طرح) مسلمانوں اور مشرکوں کے قبرستان کے درمیان فرق کیا ہے ؛ کیونکہ وہ دار عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی کا علاقہ ہے جیسا کہ مقام حجر ہے۔ اور امام مالک (رح) نے المجموعہ میں کہا ہے : اونٹوں کے باڑے میں نماز نہیں پڑھی جائے گی اگرچہ کپڑا بھی بچھایا جائے ؛ گویا کہ آپ نے اس کی دو علتیں بیان کی ہیں : ایک ان کا نجاست سے ڈھکا ہوا ہونا اور دوسرا اونٹوں کے بدکنے یا دوڑنے کا خدشہ پس (اس طرح) نمازی کی نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر اس میں ایک اونٹ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ؛ جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ کرتے تھے ؛ یہ حدیث صحیح میں ہے۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : ایسی قالین پر نماز نہ پڑھی جائے جس میں تصاویر ہوں مگر ضرورت کے تحت۔ اور ابن قاسم نے نماز کو مکروہ قرار دیا ہے جبکہ قبلہ سمت تصاویر ہوں، اور مغصوبہ گھر میں بھی نماز مکروہ ہے، اور اگر کسی نے پڑھ لی تو وہ ہوجائے گی۔ اور بعض نے امام مالک (رح) سے نقل کیا ہے کہ غصب شدہ گھر میں نماز جائز نہیں ہوتی۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : یہ میرے نزدیک بخلاف زمین کے ہے کیونکہ گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوا جاتا، اور زمین اگرچہ وہ (کسی کی) ملکیت ہے بیشک اس میں مسجد ہونے کا وصف قائم ہے اور کسی کا اس کا مالک ہونا اسے باطل نہیں کرتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : انشاء اللہ وہ صحیح جس پر نظر و فکر اور خبر دلالت کرتی ہے کہ ہر پاک جگہ میں نماز جائز اور صحیح ہے اور حضور نبی مکرم ﷺ کے ارشاد میں یہ جو مروی ہے : ” بیشک یہ وادی ہے اس کے ساتھ شیطان ہے “۔ اور اسے معمر نے زہری سے روایت کیا ہے پس آپ نے فرمایا : ” تم اس جگہ سے نکل چلو جس میں تمہیں غفلت آپہنچی ہے “۔ اور حضرت علی ؓ کا یہ قول کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے منع فرمایا کہ میں بابل کی زمین میں نماز پڑھوں کیونکہ اس میں لعنت کی گئی ہے اور آپ ﷺ کا ارشاد کہ جس وقت آپ ثمود کے مقام حجر سے گزرے : ” تم ان عذاب دئیے گئے لوگوں پر داخل نہ ہو مگر (اس طرح) کہ تم رو رہے ہو “۔ اور آپ کا اونٹوں کے باڑے میں نماز سے منع کرنا اور علاوہ ازیں جو اس باب سے متعلقہ ہیں، یہ ان اصولوں کے مطابق جن پر اجماع ہے اور اس بارے میں آنے والے صحیح دلائل کے مطابق مردود ہیں۔ امام حافظ ابو عمر نے کہا ہے : ہمارے نزدیک اس باب میں مختاریہ ہے کہ اس وادی اور اس کے علاوہ زمین کے دیگر حصص کیلئے جائز ہے کہ ان تمام میں نماز پڑھی جائے جب تک ان میں کوئی یقینی ایسی نجاست نہ ہو جو نماز کے مانع ہو، اور جس کسی نے یہ علت بیان کی ہے کہ نماز سے سونے کی جگہ شیطان کی جگہ ہے اس کا کوئی معنی (اور اس کی کوئی اصل) نہیں ہے۔ اور وہ جگہ جس میں لعنت کی گئی اس میں کوئی واجب اور ضروری نہیں کہ اسمیں نماز پڑھی جائے، اور اس باب میں جو روایات مروی ہیں کہ قبرستان میں، بابل کی زمین میں، اونٹوں کے باڑے میں اور علاوہ ازیں ان جیسی جگہوں میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے وہ تمام ہمارے نزدیک حضور ﷺ کے اس ارشاد جعلت لی الأرض مسجدا و طھورا کی عمومیت کی وجہ سے منسوخ اور ختم ہوچکی ہیں۔ اور آپ ﷺ کا ارشاد یہ خبر دے رہا ہے کہ یہ آپ کے فضائل میں سے ہے اور ان چیزوں میں سے ہے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہیں، اور اہل علم کے نزدیک آپ کے فضائل پر دلالت کرنے والی روایات کا نہ نسخ جائز ہے نہ ان میں تبدیلی اور نہ ہی کمی جائز ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے پانچ چیزیں عطا فرمائی گئی ہیں “۔ مسئلہ نمبر 7: یہ بھی روایت ہے کہ چھ عطا فرمائی گئی ہیں، اور اسی طرح تین اور چار کی روایت بھی ہے، اور ان کی انتہاء اس سے زیادہ نو تک ہے، آپ نے ان میں فرمایا ہے : ” مجھ سے پہلے کسی کو وہ عطا نہیں کی گئیں مجھے سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا اور راغب کے ساتھ میری مدد کی گئی اور میری امت کو تمام امتوں سے بہترین امت بنایا گیا، اور میرے لئے غنائم کو حلال کیا گیا، اور میرے لئے زمین کو مسجد اور پاکیزگی کا ذریعہ بنایا گیا، اور مجھے شفاعت عطا فرمائی گئی، اور مجھے جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا، اور اس اثنا میں کہ میں سویا ہوا تھا مجھے زمین (کے خزانوں) کی چابیاں عطا فرمائی گئیں اور وہ میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں، اور مجھے کوثر عطا فرمایا گیا، اور میرے ساتھ سلسلہ انبیاء (علیہم السلام) ختم کردیا گیا “۔ اسے صحابہ کرام کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ اور ان میں سے بعض نے ان میں سے بعض کو ذکر کیا ہے اور بعض نے وہ بعض ذکر کی ہیں جو ان کے سوا دوسروں نے ذکر نہیں کیں۔ اور یہ تمام کی تمام صحیح روایات ہیں۔ اور آپ ﷺ کے فضائل پر زیادتی جائز ہے لیکن ان میں کمی کرنا جائز نہیں ہے : کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نبی ہونے سے پہلے عبد تھے پھر رسول ہونے سے پہلے آپ نبی تھے ؛ اسی طرح آپ سے مروی ہے۔ اور فرمایا : ” میں اسے نہیں جانتا جو میرے ساتھ کیا جائے گا اور نہ اسے جو تمہارے ساتھ کیا جائے گا “۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی : لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر (الفتح :2) اور آپ ﷺ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا : یا خیر البریۃ (اے کائنات سے بہتر) ؛ تو آپ نے فرمایا : ” وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں “۔ اور فرمایا : ” تم میں سے کوئی یہ نہ کہے، میں یونس بن متا سے بہتر ہوں “۔ اور فرمایا : ” سید حضرت یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) ہیں “۔ پھر ان تمام کے بعد ارشاد فرمایا : أنا سید ولد أدم ولافخر (میں اولاد آدم کا سرداد ہوں اور مجھے کوئی فخر نہیں ہے) پس آپ ﷺ کے فضائل مسلسل بڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمالی ؛ پس اسی وجہ سے ہم نے کہا ہے : بلاشبہ ان میں نسخ، استثنا، اور کمی جائز نہیں ہے البتہ ان میں زیادتی جائز ہے۔ اور آپ ﷺ کے اس ارشاد جعلت فی الارض مسجد او طھورا کی وجہ سے ہم نے حمام، قبرستان اور زمین کے ہر حصہ میں نماز جائز قرار دی ہے جبکہ وہ نجاستوں سے پاک ہو۔ اور آپ ﷺ نے حضرت ابو ذر ؓ کو فرمایا : ” جہاں بھی تجھے نماز کا وقت آپہنچے وہیں نماز پڑھ لے کیونکہ ساری زمین مسجد ہے “۔ اسے امام بخاری (رح) نے ذکر کیا ہے اور کسی جگہ کے ساتھ یہ خاص نہیں۔ اور رہے وہ جنہوں نے ابن وہب کی حدیث سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے : مجھے یحییٰ بن ایوب نے زید بن جبیرہ سے، انہوں نے داؤد بن حصین سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے مجھے خبر دی ہے، یہ ترمذی کی وہی حدیث ہے جسے ہم ذکر کرچکے ہیں پس اس حدیث کے ساتھ زید بن جبیرہ منفرد راوی ہیں اور محدثین نے اس پر اس کا انکار کیا ہے، اور یہ حدیث مسند معروف نہیں ہے مگر صرف اس روایت کے ساتھ یحییٰ بن ایوب عن زید بن جبیرۃ۔ اور لیث بن سعد نے عبد اللہ بن نافع مولی ابن عمر ؓ کی طرف لکھا اور اس حدیث کے بارے پوچھا، تو عبد اللہ بن نافع نے ان کی طرف لکھا : میں اسے نہیں جانتا جس نے اسے نافع سے بیان کیا ہے مگر یہ کہ یہ باطل ہے۔ حلوانی نے اسے سعید بن ابی مریم سے اور انہوں نے لیث سے ذکر کیا ہے، اور اس میں مشرکوں کے مقبرہ کی دوسروں سے کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : میرے محبوب ﷺ نے مجھے قبرستان میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، اور مجھے بابل کی زمین میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، کیونکہ اس میں لعنت کی گئی ہے۔ اس کی اسناد ضعیف ہے۔ اور اس کے ضعف پر اجماع ہے، اور وہ ابو صالح جنہوں نے اسے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے وہ سعید بن عبد الرحمن غفاری، بصری ہیں وہ مشہور راوی نہیں ہیں اور ان کا حضرت علی ؓ سے سماع صحیح نہیں ہے، اور جو ان کے سواراوی ہیں وہ مجہول ہیں، وہ معروف نہیں ہیں۔ ابو عمر نے کہا ہے : اس باب میں حضرت علی ؓ سے آپ کا غیر مرفوع قول ہے وہ حدیث حسن الاسناد ہے، اسے فضل بن وکین نے روایت کیا ہے انہوں نے کہا ہے : مغیرہ بن ابی الحرکندی نے ہمیں بیان کیا ہے انہوں نے کہا مجھے ابو العنبس حجر بن عنبس نے بیان کیا انہوں نے کہا : ہم حضرت علی ؓ کے ساتھ حروریہ کی طرف نکلے، پس جب ہم سوریا سے آگے نکلے اور بابل کی زمین میں داخل ہوئے، ہم نے کہا : اے امیر المومنین ! شام ہوگئی ہے، نماز نماز ؛ تو آپ نے کسی سے کلام نہ کی۔ پھر لوگوں نے کہا : اے امیر المومنین ! تحقیق شام کا وقت ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا : ہاں (شام ہوچکی ہے) لیکن میں اس زمین میں نماز نہ پڑھوں گا جسے اللہ تعالیٰ نے دھنسا دیا ہے۔ اور مغیرہ بن حرکوفی ثقہ راوی ہے ؛ یہ یحییٰ بن معین وغیرہ نے کہا ہے۔ اور حجر بن عنبس کبار اصحاب علی ؓ میں سے ہیں۔ اور ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” زمین ساری کی ساری مسجد ہے سوائے مقبرہ اور حمام کے “۔ ترمذی ؓ علیہ نے کہا ہے : اسے سفیان ثوری نے عمرو بن یحییٰ سے انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے مرسل روایت کیا ہے، گویا یہ اثبت اور اصح ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : پس اس سے استدلال کرنا ان کے نزدیک ساقط ہے، جو مرسل روایت کو حجت تسلیم نہیں کرتے، اگرچہ اس سند سے ثابت ہے جو ہم نے ذکر کی ہے۔ ہم اس طرح نہیں کہتے جیسا کہ ان بعض نے کہا ہے جو اہل مدینہ کے مذہب کو اپنانے والے ہیں کہ بیشک اس حدیث میں اور اس کے علاوہ دیگر احادیث میں مقبرہ سے مراد صرف مشرکوں کا قبرستاں لیا گیا ہے) ، کیونکہ المبقرہ الحمام دونوں الف لام کے ساتھ ذکر فرمائے، پس یہ جائز نہیں ہے کہ بغیر توقیف کے مراد بعض مقبروں کے سوا بعض مقبرے ہوں یا بعض حماموں کے سوا بعض حمام مراد لئے جائیں، کیونکہ یہ ایسا قول ہے جس پر کتاب و سنت میں سے کوئی دلیل نہیں ہے نہ کوئی خبر صحیح موجود ہے، اور نہ اس کے لئے قیاس اور عقل میں کوئی گنجائش ہے، اور نہ سیاق کلام اس پر دلالت کرتا ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی خبر موجود ہے۔ اور جنہوں نے مشرکین کے مقبرہ کو خاص کیا ہے ان کی تخصیص دو دج ہوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہوگی کہ یا تو وہ اس وجہ سے ہے کہ وہاں کفار کی آمدورفت لگی رہتی ہے لیکن اس سبب سے مقبرہ کے خصوصی ذکر کا کوئی معنی نہیں، کیونکہ ہر وہ جگہ جہاں وہ اپنے جسموں کے ساتھ اور اپنے قدموں کے ساتھ آتے ہاتے ہوں تو اس کا حکم سی طرح ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اس سے عظیم اور بلند تر ہے کہ آپ ایسی چیز کے بارے گفتگو فرمائیں جس کا کوئی معنی نہ ہو۔ یا پھر یہ اس وجہ سے ہوگا کہ وہ ناراضگی اور غضب کے نازل ہونے کی جگہ ہے۔ تو اگر اس طرح ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مشرکوں کے مقبرہ میں اپنی مسجد نہ بناتے نہ آپ انہیں اکھیڑتے، نہ ہموار کرتے اور نہ اس پر مسجد کی تعمیر کرتے۔ اگر مقابر میں سے کسی مقبرہ میں نماز ادا کرنے کے لئے قائل کا قول جائز ہوتا تو پھر اس حدیث کی وجہ سے مشرکین کا مقبرہ بدرجہ اولیٰ مخصوص اور مستثنیٰ ہوتا۔ اور ہر وہ ھس نے مقبرہ میں نماز کو مکروہ قرار دیا ہے اس نے کسی مقبرہ کو خاص نہیں کیا ؛ کیونکہ الف لام کا اشارہ جنس کی طرف ہے نہ کہ معبود کی طرف، اور اگر مسلمانوں اور مشرکوں کے مقبرہ کے مابین فرق ہوتا تو حضور نبی مکرم ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے اور اسے مہمل نہ چھوڑتے ؛ کیونکہ آپ ﷺ کو وضاحت اور بیان کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور اگر کسی جاہل کے لئے یہ کہنا جائز ہو کہ مقبرہ اس طرح ہے تو پھر کسی دوسرے کیلئے یہ کہنا بھی جائز ہوگا کہ حمام اس طرح ہے ؛ کیونکہ حدیث میں مقبرہ اور حمام دونوں کا ذکر ہے۔ اور اسی طرح آپ کا قول : المزیلۃ) کوڑے کرکٹ کا ڈھیر) اور المجزرہ (ذبح خانہ) ہے ؛ اس میں یہ جائز نہیں کہ یہ کہا جائے : ڈھیر اس طرح ہو اور نہ ہی جائز ہے کہ کہا جائے : ذبح خانہ اس طرح ہو اور نہ یہ کہنا جائز ہے کہ راستہ اس طرح ہو ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دین میں اپنی رائے سے فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ مشرکین کے مقبرہ میں تیمم جائز ہے بشرطیکہ مٹی طیب، طاہر اور صاف ستھری ہو۔ اور اسی طرح انہوں نے اس پر بھی اجماع کیا ہے کہ جس نے عیسائیوں یا یہودیوں کی عبادتگاہ میں پاک جگہ پر نماز پڑھی کہ اس کی نماز قضا ہو رہی ہو تو وہ جائز ہے۔ اور یہ سورة برأۃ میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ کنیسہ (گر جاگھر) مقبرہ کی نسبت اس کی زیادہ قریب ہے کہ وہ ناراضگی اور غضب کے نازل ہونے کی جگہ ہو، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے، اور مقبرہ اس طرح نہیں ہے۔ اور یہودیوں کی عبادت گاہوں اور گرجا گھروں کو مساجد بنانے کے بارے میں سنت بھی موجود ہے۔ امام نسائی نے حضرت طلق بن علی سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا : ہم ایک وفد کی صورت میں حضور نبی مکرم ﷺ کی طرف نکلے اور ہم نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز ادا کی، اور ہم نے آپ کی خبر دی کہ ہماری زمین میں ہمارے یہودیوں کی ایک عبادتگاہ ہے، اور آگے پوری حدیث ذکر کی۔ اور اس میں ہے : ” پس جب تم اپنی زمین پر پہنچو تو اپنی موجودہ عبادتگاہ کو توڑ دو اور اسے مسجد بنالو “۔ اور اطو داؤد نے عثمان بن ابی العاص سے ذکر کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ طائف کی مسجد اس جگہ بنائیں جہاں ان کے بت پڑے تھے۔ اور سورة برأۃ میں یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور تیرے لئے حضور نبی کریم ﷺ کی وہ مسجد ہی (بطور حجت) کافی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی درآنحالیکہ وہ مشرکین کے قبرستان میں بنائی گئی اور یہ ہر اس کے خلاف حجت ہے جس نے اس میں نماز کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور جنہوں نے مقبرہ میں نماز کو مکروہ کہا ہے چاہے وہ مسلمانوں کا ہو یا مشرکوں کا وہ حضرت ثوری، امام ابو حنیفہ، امام اوزاعی، امام شافعی اور ان کے اصحاب رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔ اور حضرت ثوری (رح) کے نزدیک نماز کا اعادہ نہیں ہے۔ اور امام شافعی (رح) کے نزدیک نماز جائز ہوگی جب اس نے مقبرہ میں ایسی جگہ پڑھی جہاں کوئی نجاست نہ تھی یہ ان احادیث کی وجہ سے ہے جو اس بارے میں معلوم ہیں، اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور تم انہیں قبریں نہ بناؤ “۔ اور ابو مرثد غنوی ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم قبروں کی طرف منہ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو “۔ اور یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے ثابت ہیں، اور ان میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ دونوں تاویل کا احتمال رکھتی ہیں، اور یہ واجب نہیں ہے کہ ہر پاک جگہ میں نماز پڑھنے سے رکا جائے مگر ایسی دلیل کے ساتھ جو تاویل کا احتمال نہ رکھتی ہو۔ اور مسلمان فقہاء میں سے کسی نے مسلمانوں اور مشرکوں کے مقبرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے مگر وہ جسے ہم نے بیان کیا ہے وہ ایسا لغو قول ہے جس کی مثل کے ساتھ آدمی مشغول نہیں ہوسکتا، اور نظر و فکر میں اس کی کوئی وجہ نہیں اور نہ اس بارے میں کوئی صحیح اثر ہے۔ مسئلہ نمبر 8: اور آٹھواں مسئلہ یہ ہے :۔ کہ وہ باغ جس میں گندگی اور غلاظت پھینکی جاتی ہو تاکہ وہ اس میں بیلیں وغیرہ لگائے تو اس میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے یہاں تک کہ وہ تین بار اسے سیراب کرلے، جیسا کہ اسے دار قطنی نے حضرت مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ اور آپ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے ایسے باغ کے بارے میں روایت بیان کی ہے جس میں گندگی اور غلاظت پھینکی جاتی ہے، آپ نے فرمایا : ” جب وہ تین بار سیراب کرلیا جائے تو پھر اس میں نماز پڑھ لے “۔ اور انہوں نے حضرت نافع کی حدیث بھی نقل کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ایسے باغات کے بارے پوچھا گیا جن میں گندگیاں پھینکی جاتی ہیں اور یہ کوڑا کو کٹ پھینکا جاتا ہے، کیا ان میں نماز پڑھی جاسکتی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : جب تو انہیں تین بار سیراب کرلے تو پھر ان میں نماز پڑھ لے، انہوں نے اسے حضور نبی مکرم ﷺ تک مرفوع بیان کیا ہے اور یہ دونوں نے اسناد میں اختلاف کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top