Al-Qurtubi - Al-Hijr : 57
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : پس کیا ہے تمہارا کام (مہم) اَيُّهَا : اے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتو)
پھر کہنے لگے کہ فرشتوں تمہیں (اور) کیا کام ہے ؟
آیت نمبر 57 تا 60 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: جب آپ نے جان لیا کہ یہ ملائکہ ہیں کیونکہ انہوں نے آپ کو خارق عادت امر کے بارے خبر دی اور وہ ان کے بچے کی ولادت کے بارے خوشخبری دینا ہے۔ تو آپ نے کہا : تم کس اہم کام کے لئے آئے ہو ؟ اور الخطب کا معنی ہے الامر الخطیر اہم ذی مرتبہ کام، یعنی تمہارا کام اور مقصد کیا ہے اور کس کام کی غرض سے تم آئے ہو ؟ قالوا انا ارسلنا الی قوم مجرمین انہوں نے کہا : بیشک ہم مشرک اور گمراہ قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ اور کلام میں اضمار ہے : ای أرسلنا الی قوم مجرمین لنھلکم (ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم انہیں ہلاک کردیں) ۔ الا ال لوط سوائے آپ کی پیروی کرنے والوں کے اور آپ کے دین کو ماننے والوں کے۔ انا لمنجوھم حمزہ اور کسائی نے لمنجوھم تخفیف کیساتھ پڑھا ہے یہ أنجی سے ماخوذ ہے۔ باقیوں نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے یہ نجی سے ماخوذ ہے، اور اسے ابو عبیدہ اور ابو حاتم میں سے آپ کی بیوی کی استثنا ہے اور وہ کافرہ تھی پس وہ ہلاکت میں مجرموں کے ساتھ مل گئی۔ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا قصہ سورة الاعراف اور سورة ہود میں گزر چکا ہے جو کچھ وہاں ہے وہ کافی ہے۔ قدرنا انھا لمن الغبرین یعنی ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے اور ہم نے لکھ دیا ہے کہ وہ عذاب میں باقی رہنے والوں سے ہوگی۔ اور الغابر کا معنی الباقی (باقی رہنے والا) ہے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے بھی کہا ہے : لا تکسع الشول بأغبارھا إنک لا تدری من الناتج الأغبار کا معنی باقی رہنے والا دودھ ہے۔ ابوبکر اور مفضل نے قدرنا یہاں اور سورة نمل میں تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور باقیوں نے اسے مشدد پڑھا ہے۔ ہر وی نے کہا ہے : کہا جاتا ہے کہ قدر اور قدر دونوں ہم معنی ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: اہل زبان اور ان کے سوا کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نفی سے استثنا اثبات اور اثبات سے استثنا نفی ہوتا ہے ؛ پس جب کوئی آدمی کہے : لہ علی عشرۃ دراھم الا أربعۃ الا درھما (اس کے مجھ پر دس درہم ہیں سوائے چار کے سوائے ایک درہم کے) تو اس سے سات درہموں کا اقرار ثابت ہوا ؛ کیونکہ ایک درہم کی استثنا چار سے کی گئی ہے، اور یہ مثبت ہے کیونکہ یہ منفی سے مستثنی ہے، اور اربعہ (چار) منفی ہے، کیونکہ اس کی استثنا کلام موجب سے کی گئی ہے اور وہ عشرہ (دس) ہے، پس ایک درہم چھ کی طرف لوٹ گیا اور دو سات ہوگئے۔ اور اسی طرح اگر کوئی کہے : علی خمسۃ دراھم الادرھما الا ثلثیہ (مجھ پر پانچ درہم ہیں سوائے ایک درہم کے سوائے اس کے دو تہائی کے) تو اس پر چار درہم اور ایک درہم کا ایک ثلث لازم ہوگا۔ اور اسی طرح جب کسی نے کہا : لفلان علی عشرۃ الا تسعۃ الاثمانیۃ الا سبعۃ (فلاں کے مجھ پر دس ہیں سوائے نو کے سوائے آٹھ کے سوائے سات کے) تو دوسری استثنا اپنے ماقبل کی طرف لوٹ جائے گی، اور تیسری دوسری کی طرف لوٹ جائے گی، نتیجتاً اس پر دو درہم لازم ہوں گے ؛ کیونکہ دس اثبات ہے اور آٹھ بھی اثبات ہے پس یہ مجموعی طور پر اٹھارہ درہم ہوجائیں گے۔ پھر نو بھی نفی ہے اور سات بھی نفی ہے تو یہ سولہ درہم ہوگئے جو اٹھارہ سے ساقط ہو رہے ہیں پس باقی دو درہم رہ جائیں گے، اور یہی مقدار اقرار کے ساتھ واجب ہوئی ہے اس کے سوا کوئی نہیں۔ پس قولہ سبحانہ و تعالیٰ : انا ارسلنا الی قوم مجرمین۔ الا ال لوط انا لمنجوھم اجمعین۔ الا امراتہ پس اس میں مجرموں کی قوم سے آل لوط کی استثنا کی ہے، پھر فرمایا الا امراتہ پھر اس کی استثنا آل لوط سے کی، تو یہ تاویل میں مجرموں کی قوم کی طرف لوٹ گئی جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں۔ اور اسی طرح کا حکم طلاق میں ہے، اگر کسی نے اپنی بیوی کو کہا : أنت طالق ثلاثا إلا اثنتین إلا واحدۃ (تجھے تین طلاقیں سوائے دو کے سوائے ایک کے) تو وہ دو طالقوں کے ساتھ مطلقہ ہوگی، کیونکہ ایک مستثنیٰ منہ جو کہ تین طلاقیں ہیں سے باقی رہنے والی طلاق کی طرف لوٹ جائے گی اور اسی طرح اس کا حکم ہے جو اس طرز پر آئے تو اسے سمجھ لے۔
Top