Al-Qurtubi - Al-Hijr : 49
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ
نَبِّئْ : خبر دیدو عِبَادِيْٓ : میرے بندے اَنِّىْٓ : کہ بیشک اَنَا : میں الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
(اے پیغمبر ﷺ میرے بندوں کو بتادو کہ میں بڑا بخشنے والا (اور) مہربان ہوں۔
آیت نمبر 49 تا 50 یہ آیت حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد کی مثل ہے : ” اگر مومن اس سزا اور عذاب کو جان لے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی طمع اور حرص نہ کرے اور اگر کافر اس رحمت کو جان لے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو کوئی اس کی رحمت سے مایوس اور ناامید نہ وہ “۔ اسے امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ اور یہ سورة فاتحہ میں گزر چکا ہے۔ اور اسی طرح انسان کو چاہئے کہ وہ اپنا اور دوسرے کا ذکر کرے پس اسے خوف بھی دلائے اور امید بھی دلائے، اور اس پر حالت مرض کے مقابلے میں حالت صحت میں خوف زیادہ اور غالب ہو۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے اور وہ ہنس رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم ہنس رہے ہو حالانکہ جنت اور دوزخ تمہارے سامنے ہیں “۔ تو یہ ان پر انتہائی گراں گزرا تب یہ آیت نازل ہوئی، اسے ماردوی اور مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ اور ثعلبی کے الفاظ ہیں : حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا : حضور نبی کریم ﷺ ہمارے پاس اس دروازے سے تشریف لائے جس سے بنو شیبہ داخل ہوتے تھے اور ہم ہنس رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا ہے تمہارے لئے تم ہنس رہے ہو میں تمہیں ہنستے ہوئے نہ دیکھوں “۔ پھر آپ پیٹھ پھیر کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ جب مقام الحجر کے پاس پہنچے تو الٹے پاؤں واپس تشریف لائے اور ہمیں ارشاد فرمایا : ” بیشک جب میں نکلا تو میرے پاس حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور کہا : اے محمد ! ﷺ میرے بندوں کو میری رحمت سے مایوس نہ کیجئے نبی عبادی انی انا الغفور الرحیم۔ وان عذابی ھو العذاب الالیم۔ پس قنوط مایوسی اور ناامیدی ہے، اور الرجاء مہمل چھوڑ دینا ہے، اور امور میں سے بہترین درمیانہ امر ہے۔
Top