Al-Qurtubi - Al-Hijr : 47
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ
وَنَزَعْنَا : اور ہم نے کھینچ لیا مَا : جو فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینے مِّنْ : سے غِلٍّ : کینہ اِخْوَانًا : بھائی بھائی عَلٰي : پر سُرُرٍ : تخت (جمع) مُّتَقٰبِلِيْنَ : آمنے سامنے
اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی اس کو ہم نکال (کر صاف کر) دیں گے (گویا) بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہیں۔
آیت نمبر 47 تا 48 حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : سب سے پہلے جو اہل جنت جنت میں داخل ہوں گے تو ان کو دو چشمے پیش کئے جائیں گے، پس وہ ان میں سے ایک چشمے سے پئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں جو کینہ تھا اسے نکال دے گا، ختم کر دے گا، پھر وہ دوسرے چشمے پر داخل ہوں گے اور ان میں غسل کریں گے تو ان کے رنگ روشن ہوجائیں گے اور ان کے چہرے صاف اور چمکنے لگیں گے، اور ان پر نعمتوں کی تازگی اور رونق نمایاں ہوجائے گی ؛ اور اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے۔ اور حضرت علی بن حسین ؓ نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی اور صحابہ کرام ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مراد وہ کینہ وغیرہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان تھا۔ اور پہلا قول زیادہ ظاہر اور واضح ہے، اور آیت کا سیاق اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اور حضرت علی ؓ نے کہا ہے : میں امید رکھتا ہوں کہ میں، طلحہ اور زبیر ؓ انہی میں سے ہوں گے۔ اور الغل کا معنی کینہ اور عداوت ہے، اسی (معنی) سے کہا جاتا ہے : غل یغل۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ غلول سے ہے اور اسے مراد مال غنیمت سے مال چرانا ہے۔ اس کا باب غل یغل ہے۔ اور خیانت کرنے کے معنی میں بھی ہے اور اس کے لئے اغل یغل کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : جزی اللہ عنا حمزۃ ابنۃ نوفل جزاء مغل بالأمانۃ کاذب یہ معنی سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ اخوانا علی سرر متقلبین یعنی وہ بام ایک دوسرے سے ملنے اور محبت کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردن کی پشت نہیں دیکھیں گے ؛ یہ معنی حضرت مجاہد (رح) وغیرہ سے منقول ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تخت ادھر ہی گھوم جائیں گے جدھر وہ چاہیں گے، اور ان میں سے کوئی دوسرے کی گردن کی پشت نہیں دیکھے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : متقبلین تحقیق وہ اور ان کی ازواج محبت کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ اور سرر، سریر کی جمع ہے ؛ جیسے جدید کی جمع جدد ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہ سرور سے ہے ؛ تو گویا یہ وہ بلند اور رفیع مکان ہے جو سرور (خوشی) کے لئے تیار کیا گیا ہے (بچھایا گیا ہے) اور پہلا قول اظہر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : وہ ایسے تختوں پر ہوں گے جنہیں یاقوت، زبر جد اور موتیوں کے ساتھ آراستہ کیا گیا ہوگا، سجایا گیا ہوگا، اور ایک تخت اتنا ہوگا جتنا صنعا اور جابیہ کے درمیان فاصل ہے اور عدن سے لے کر ایلہ تک کا درمیانی فاصل ہے۔ اور اخوانا، المتقین سے یا ادخلوھا میں موجود ضمیر سے، یا امنین میں مضمر ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، یا پھر یہ صدورھم کی ھا اور میم سے حال مقدرہ ہوگا۔ وما ھم منھا بمخرجین یہ اس پر دلیل ہے کہ جنت کی نعمتیں دائمی ہیں وہ کبھی زائل اور ختم نہیں ہوں گی، اور یہ کہ اہل جنت ان میں باقی رہیں گے۔ اکلھا دائم (الرعد :35) (اس کا پھل ہمیشہ رہتا ہے) ان ھذا الرزقنا ما لہ من نفاد۔ (ص) (بےشک یہ ہمارا (دیا ہوا) رزق ہے جو کچھ ختم نہ ہوگا) ۔
Top