Al-Qurtubi - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
آیت نمبر 45 تا 46 قولہ تعالیٰ : ان المتقین فی جنت وعیون یعنی وہ لوگ جو فواحش اور شرک سے بچتے رہے۔ فی جنت یعنی وہ باغات میں وعیون (اور چشموں میں (آباد) ہوں گے) اور یہ چار نہریں ہیں : پانی، شراب، دودھ اور شہد کی نہریں۔ اور رہے وہ چشمے جن کا ذکر سورة الانسان میں کیا گیا ہے یعنی کافور، زنجیل اور سلسبیل، اور سورة المطففین میں : تسنیم ہے ان کا ذکر اور ان کے باسیوں کا ذکر آگے آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور عیون میں اصل کی بنا پر عین کو ضمہ، اور یا کی رعایت کرتے ہوئے اسے کسرہ بھی دیا گیا ہے۔ اور ان دونوں کے ساتھ اسے پڑھا گیا ہے۔ ادخلوھا بسلم امنین عام قرأت ادخلوھا میں ہمزہ وصل اور خا کے ضمہ کے ساتھ ہے اور یہ دخل یدخل سے ماخوذ ہے۔ اور صیغہ امر ہے۔ اس کی تقدیر ہے : قیل أدخلوھا۔ (انہیں کہا جائے گا : تم داخل ہوجاؤ) ۔ اور حسن، ابو العالیہ اور رویس نے یعقوب سے أدخلوھا تنوین اور ہمزہ وصل کے ضمہ اور خاکے کے کسرہ کے ساتھ فعل مجہول کی صورت میں پڑھا ہے، اور یہ أدخل سے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انہیں ان میں داخل فرمائے گا۔ اور ان کا مذہب یہ ہے کہ اس قسم کی مثالوں میں تنوین کو کسرہ دیا گیا ہے برحمۃ، ادخلوا الجنۃ (الاعراف : 49) اور جو بھی اس کے مشابہ ہیں، مگر یہاں انہوں نے ہمزہ کی حرکت تنوین پر ڈال دی ہے، کیونکہ یہ ہمزہ قطعی ہے، لیکن اس میں کسرہ سے ضمہ کی طرف انتقال ہوا ہے پھر ضمہ سے کسرہ کی طرف، اور یہ زبان پر ثقیل ہوجاتا ہے۔ بسلم یعنی ہر بیماری اور آفت سے سلامتی کے ساتھ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے لئے سلام ہے۔ امنین یعنی موت اور عذاب سے بےخوف ہوکر۔
Top