Al-Qurtubi - Al-Hijr : 42
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
اِنَّ : بیشک عِبَادِيْ : میرے بندے لَيْسَ : نہیں لَكَ : تیرے لیے (تیرا) عَلَيْهِمْ : ان پر سُلْطٰنٌ : کوئی زور اِلَّا : مگر مَنِ : جو۔ جس اتَّبَعَكَ : تیری پیروی کی مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : بہکے ہوئے (گمراہ)
جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں (کہ ان کو گناہ میں ڈال سکے) ہاں بد راہوں میں سے جو تیرے پیچھے چل پڑے۔
آیت نمبر 42 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ان عبادی لیس لک علیھم سلطن علماء نے کہا ہے : یعنی میرے بندوں کے دلوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا۔ اور ابن عینیہ نے کہا ہے : یعنی اس بارے میں کہ وہ انہیں گناہ میں ڈال دے جو انہیں میری عفو سے روک دے اور اسے ان پر تنگ کر دے (ان پر کوئی بس نہیں چلتا) اور وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہے اور انہیں چن لیا ہے، اور انہیں پسند فرما لیا ہے اور انہیں منتخب فرما لیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : شاید کہنے والا کہہ رہا ہے، تحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حضرت حوا (علیہما السلام) کے بارے اپنے اس ارشاد کے ساتھ خبر دی ہے : فازلھما الشیطن (البقرہ :36) (پھر پھسلا دیا انہیں شیطان نے) اور من جملہ اپنے نبی کے اصحاب کے بارے میں اپنے اس قول کے ساتھ خبر دی : انما استزلھم الشیطن ببعض ما کسبوا (آل عمران :155) (تو پھسلا دیا تھا انہیں شیطان نے بوجہ ان کے کسی عمل کے) پس وہ جواب جو ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اسے ان کے دلوں پر کوئی بس نہیں چلتا، اور نہ ان کے محل ایمان پر کوئی بس چلتا ہے، اور نہ وہ انہیں ایسے گناہ میں ڈال سکتا ہے جو انہیں عدم قبول کی طرف لوٹا دے، بلکہ توبہ اسے زائل کردیتی ہے اور (اللہ تعالیٰ کی طرف) رجوع اسے مٹا دیتا ہے۔ اور حضرت آدم (علیہ السلام) کا نکلنا اس کی سز انہیں جو انہوں نے کھایا ؛ جیسا کہ اس کا بیان سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور رہے حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب تو ان کے بارے کلام سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قول : لیس لک علیھم سلطن یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ یہ ان کے بارے میں خاص ہو جن کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی ہے، اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ یہ اکثر اوقات اور اکثر احوال کے بارے میں ہو، اور کبھی اس کا تسلط تکلیف کو دور کرنے اور غم کو زائل کرنے کی صورت میں ہوتا ہے ؛ جیسا کہ حضرت بلال ؓ سے کیا گیا، جب وہ آپ کے پاس آیا تو وہ آپ کی تھپکی دینے لگا (پرسکون کرنے لگا) جیسے بچے کو تھپکی دی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ سو گئے، اور حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام سب سوگئے پس وہ بیدار نہ ہوئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا، اور وہ گھبرا گئے اور کہنے لگے : اس کا کیا کفارہ ہے جو ہم نے اپنی نماز کے بارے سستی کی ہے ؟ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا : ” نیند کی حالت مکیں تفریط نہیں ہے “۔ پس آپ نے ان سے پریشانی اور اضطراب کو دور کردیا۔ الا من اتبعک من الغوین مگر جو گمراہوں اور مشرکوں میں سے تیری پیروی کرتے ہیں۔ یعنی ان پر اسکے غلبے کی دلیل یہ ہے انما سلطنہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون۔ (النحل) (اس کا زور تو صرف ان پر چلتا ہے جو یارانہ گانٹھتے ہیں اس سے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں) ۔ مسئلہ نمبر 2: یہ اور اس سے پہلی والی آیت اس پر دلیل ہے کہ قلیل کی استثنا کثیر سے اور کثیر کی استثنا قلیل سے جائز ہے ؛ مثلاً کوئی یہ کہے : عشرۃ الادرھما (دس سوائے ایک درہم کے) یا کوئی یہ کہے : عشرۃ الا تسعۃ (دس سوائے نو کے) اور امام احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ نے بیان کیا ہے : فقط نصف اور اس سے کم مقدار کی استثناء جائز ہوتی ہے۔ اور رہی کل سے اکثر کی استثنا تو یہ صحیح نہیں ہوتی۔ اور ہماری دلیل یہ آیت ہے، کیونکہ اس میں الغاوین کی استثنا عباد سے، اور عباد کی استثناء غاوین سے ہے، اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اقل کی استثنا کل سے اور اکثر کی استثنا کل سے سب جائز ہے۔
Top