Al-Qurtubi - Al-Hijr : 36
قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب فَاَنْظِرْنِيْٓ : تو مجھے مہلت دے اِلٰى : تک يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : جس دن (مردے) اٹھائے جائیں
(اس نے) کہا کہ پروردگار مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ (مرنے کے بعد) زندہ کئے جائیں گے۔۔
آیت نمبر 36 تا 38 قولہ تعالیٰ : قال رب فانظرنی الی یوم یبعثون یہ ابلیس کی طرف سے سوال اور درخواست ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے مقام و مرتبہ کے اعتماد اور ثقاہت کی وجہ سے نہیں ہے، اور یہ کہ وہ اس اہل ہے کہ اس کی دعا اور درخواست کو قبول کیا جائے ؛ بلکہ اس نے اپنے عذاب کو موخر کرنے اور اپنی آزمائش اور امتحان میں اضافہ اور زیادتی کرنے کے لئے یہ سوال کیا ؛ جیسا کہ سلامتی سے مایوس اور ناامید کا فعل ہوتا ہے۔ اور اس نے اپنے سوال میں مردوں کے قبروں سے اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دینے سے ارادہ یہ کیا کہ وہ نہ مرے، کیونکہ قبروں سے اٹھائے جانے کے دن میں کوئی موت نہیں اور نہ اس کے بعد کوئی موت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : فانک من المنظرین یعنی تو مہلت دئیے ہوئے گروہ میں سے ہے۔ الی یوم الوقت المعلوم حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : اللہ تعالیٰ نے اس سے نفخہ اولیٰ کا ارادہ فرمایا ہے، یعنی جس وقت مخلوق کو موت آئے گی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وقت معلوم سے مراد وہ وقت ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ خاص کیا ہے۔ (یعنی کوئی دوسرا اس سے واقف نہیں) اور ابلیس اس سے جاہل ہے۔ پس ابلیس کو موت آئے گی پھر اسے اٹھایا جائے گا ؛ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ کل من علیھا فان۔ (الرحمن) (جو کچھ زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے) اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے کلام میں دو قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے اس سے کلام کی۔ اور دوسرا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعید میں شدت اور سختی پیدا کرنے کے لئے اس سے کلام کی نہ کہ تکریم و تقریب کے طور پر۔
Top