Al-Qurtubi - Al-Hijr : 30
فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ
فَسَجَدَ : پس سجدہ کیا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتوں (جمع) كُلُّهُمْ : وہ سب اَجْمَعُوْنَ : سب کے سب
تو فرشتے تو سب کے سب سجدے میں گرپڑے
آیت نمبر 30 تا 31 قولہ تعالیٰ : سجد الملئکۃ کلھم اجمعون۔ الا ابلیس اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: اس میں کوئی شک نہیں کہ ابلیس کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما منعک الا تسجد اذا مرتک (الاعراف :12) (کس چیز نے روکا تجھے اس سے کہ تو سجدہ کرے جب میں نے حکم دیا تجھے) بیشک اسے اس سے تکبر کرنے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے نے روکا تھا ؛ جیسا کہ اس کا بیان سورة البقرہ میں گزر چکا ہے، پھر کہا گیا ہے : وہ ملائکہ میں سے تھا۔ اور یہ استثنا اپنی جنس سے ہی ہے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : وہ ملائکہ میں سے نہ تھا ؛ لہٰذا یہ استثنا منقطع ہے۔ یہ مکمل بحث سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : الجآن ابو الجن (جنوں کا باپ) ہے اور وہ شیاطین نہیں ہیں۔ اور شیاطین ابلیس کی اولاد ہیں، اور وہ نہیں مریں گے مگر ابلیس کے ساتھ اور جن فوت ہوتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر بھی ہیں، پس حضرت آدم (علیہ السلام) انسانوں کے باپ ہیں۔ اور جآن جنوں کا باپ پے۔ اور ابلیس شیطانوں کا باپ ہے ؛ اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کے خلاف سورة البقرہ میں پہلے گزر چکا ہے، پس وہاں غور کرلو۔ مسئلہ نمبر 2: ایک جنس کی دوسری جنس سے استثناء کرنا امام شافعی (رح) کے نزدیک صحیح ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی کہے : لفلان علی دینار الاثوبا (مجھ پر فلاں کے دینار ہیں سوائے کپڑے کے) یا عشرۃ اثواب الاقفیر حنطۃ (مجھ پر دس کپڑے ہیں سوائے ایک قفیز گندم کے) یہ ہم جنس نہیں ہیں لیکن یہ مقبول ہے، اور مستثنیٰ منہ سے کپڑے اور گندم کی قیمت ساقط ہوجائے گی اور اس میں کیلی، وزنی اور عددی سب چیزیں برابر ہیں۔ اور امام مالک (رح) اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے کہ مکیلی کی استثنا موزونی سے کرنا اور موزونی کی استثنا مکیلی سے کرنا جائز ہے، یہاں تک کہ اگر کسی نے دراہم کی استثنا گندم سے کی اور گندم کی استثنا دراہم سے کی تو وہ قبول کرلی جائے گی، لیکن جب کسی نے مقومات (جن کے ساتھ قیمت لگائی جاتی ہے) کی استثنا مکیلی یا موزونی چیزوں سے کی، اور مکیلی چیزوں کی استثا مقومات سے کی، مثلاً وہ یہ کہے : علی عشرۃ نانیر الاثوبا (مجھ پر دس دینار ہیں سوائے کپڑے کے) ، یا عشرۃ اثواب الادینارا (مجھ سے دس کپڑے ہیں سوائے ایک دینار کے) تو یہ استثنا صحیح نہ ہوگی، اور اقرار کرنے والے پر مجموعی طور پر یہ سب چیزیں لازم ہوجائیں گے۔ اور امام محمد بن حسن (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : غیر جنس سے استثنا کرنا صحیح نہیں ہوتا، اور اقرار کرنے والے پر وہ تمام چیزیں لازم ہوجاتی ہیں جن کا اس نے اقرار کیا۔ اور امام شافعی (رح) کے قول کی دلیل یہ ہے کہ لفظ استثنا جنس اور غیر جنس دونوں میں استعمال کیا جاتا ہے ؛ مثلا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : لا یسمعون فیھا لغوا ولا تاثیما۔ الا قلیلا سلما سلما۔ (الواقعہ) (نہ سنیں گے وہاں لغو باتیں اور نہ گناہ والی باتیں، بس ہر طرف سے سلام ہی سلام کی آواز آئے گی) پس اس میں تمام لغو کلام سے سلام کی استثنا کی گئی ہے۔ اور اسی کی مثل یہ ارشاد ہے : فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون اور ابلیس من جملہ ملائکہ میں سے نہیں ہے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : الا ابلیس، کان من الجن ففسق عن امر ربہ (الکہف : 50) (سوائے ابلیس کے، وہ قوم جن سے تھا سو اس نے نافرمانی کی اپنے رب کے حکم کی) ۔ اور شاعر نے کہا : وبلدۃ لیس بھا أنیس الا الیعافیر والا العیس پس اس میں شاعر نے یعافیر جو کہ مذکر ہرن ہے، اور عیس جو کہ سفید اونٹ ہے کہ أنیس سے استثنا کی ہے ؛ (اور یہ استثنا من غیر جنسہ ہی ہے) ۔ اور اسی کی مثل نابغہ کا قول بھی ہے۔
Top