Al-Qurtubi - Al-Hijr : 27
وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ
وَالْجَآنَّ : اور جن (جمع) خَلَقْنٰهُ : ہم نے اسے پیدا کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے مِنْ : سے نَّارِ السَّمُوْمِ : آگ بےدھوئیں کی
اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بےدھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا۔
آیت نمبر 27 قولہ تعالیٰ : والجآن خلقنہ من قبل یعنی آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے ہم نے جن کو پیدا فرمایا۔ اور حسن نے کہا ہے : مراد ابلیس ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے پیدا فرمایا۔ اور اسے آنکھوں سے چھپا رہنے کی وجہ سے جآن کا نام دیا گیا ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ثابت کی حدیث ہے کہ وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تصویر جنت میں بنائی اور اسے چھوڑ دیا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اسے چھوڑے رکھے تو ابلیس اس کے اردگرد گھومتا رہا اور غور سے دیکھتا رہا یہ کیا ہے پس جب اس نے اس کے درمیان (پیٹ وغیرہ) کو دیکھا تو اس نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایسی مخلوق پیدا کی ہے جو اپنے نفس کی مالک نہیں ہوگی “۔ (یعنی شہوات سے اسے محفوظ نہیں رکھ سکے گی) من نار السموم حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا ہے : نار السموم وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے جن کو پیدا کیا ہے اور یہ جہنم کی آگ کے ستر اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : السموم سے مراد وہ گرام ہوا ہے جو مار ڈالتی ہے۔ اور آپ ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ یہ ایسی آگ ہے جس کا دھواں نہیں۔ اور صواعق (بجلی کی کڑک) اسی سے ہوتی ہے۔ اور (یہ صواعق) ایک آگ ہے جو آسمان اور حجاب کے درمیان ہوتی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ حکم صادر کرے تو حجاب پھٹ جاتا ہے اور صاعقہ (بجلی کا گرنا) وہاں جا کر گرتی ہے جہاں اسے حکم دیا گیا ہو۔ پس وہ آواز (اور کڑک) جو تم سنتے ہو وہ اسی حجاب (پردے) کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔ اور حسن نے کہا ہے : نار السموم وہ آگ ہے جس کے نیچے حجاب ہے، اور بادل کی جو گرج تم سنتے ہو یہ اسی کی آواز ہوتی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ابلیس ملائکہ کے گروہوں میں سے ایک گروہ تھا ان کو جن کہا جاتا ہے وہ ملائکہ میں سے ہوتے ہوئے نار سموم سے پیدا کئے گئے۔ فرمایا۔ اور وہ جن جن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے وہ آگ کے خالص شعلے سے پیدا کئے گئے ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ محل نظر ہے ؛ کیونکہ یہ ایسی سند کا محتاج ہے جو عذر کو ختم کر دے ؛ کیونکہ اس جیسا قول فقط رائے سے نہیں کیا جاسکتا۔ اور امام مسلم (رح) نے حضرت عروہ کی حدیث نقل کی ہے انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ملائکہ نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور جن آگ کے خالص شعلے سے پیدا کئے گئے ہیں اور آدم (علیہ السلام) کو اس سے پیدا کیا گیا ہے جو تمہارے لئے بیان کیا گیا ہے “۔ پس آپ ﷺ کا قول : خلقت الملائکۃ من نور یہ عموم کا تقاضا کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور جوہری نے کہا ہے : مارج من نار سے مراد وہ آگ ہے جس کا دھواں نہیں اور اسی سے جن پیدا کئے گئے ہیں، اور سموم سے مراد گرم ہوا ہے یہ مؤنث ہے ؛ اسی سے کہا جاتا ہے : سم یومنا (ہمارا دن گرم ہوگیا) پس یہی یوم مسموم ہے، اور اس کی جمع سمائم ہے۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے : گرم ہوا کبھی دن کے وقت۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : گرم ہوا کو سموم کا نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ یہ اپنی لطافت اور نرمی کے سبب بدن کے مساموں میں داخل ہوجاتی ہے۔
Top