Al-Qurtubi - Al-Hijr : 24
وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ
وَلَقَدْ عَلِمْنَا : اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں الْمُسْتَقْدِمِيْنَ : آگے گزرنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَلَقَدْ عَلِمْنَا : اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں الْمُسْتَاْخِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
اور جو لوگ تم میں پہلے گزر چکے ہیں ہم کو معلوم ہیں۔ اور جو پیچھے آنے والے ہیں وہ بھی ہم کو معلوم ہیں۔
آیت نمبر 24 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ولقد علمنا المستقمین منکم ولقد علمنا المستاخرین اس میں آٹھ تاویلات ہیں : (1) المستقدمین یعنی جو آج دن تک پیدا ہونے میں آگے بڑھنے والے ہیں اور المستاخرین وہ جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے، یہ حضرت قتادہ اور عکرمہ وغیرہما نے کہا ہے۔ (2) المستقدمین سے مراد اموات (مرنے والے) ہیں اور المستاخرین سے مراد احیاء (زندہ) ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور ضحاک نے کہا ہے۔ (3) المستقدمین سے مراد وہ ہیں جو حضور نبی مکرم ﷺ کی امت میں سے پہلے گزر چکے ہیں اور المستاخرین وہ ہیں جو حضور نبی مکرم ﷺ کی امت میں سے پیچھے آنے والے ہیں ؛ یہ حضرت مجاہد (رح) کا قول ہے۔ (4) المستقدمین وہ ہیں جو خیر اور اطاعت میں آگے بڑھنے والے ہیں، اور المستاخرین وہ ہیں جو شر اور معصیت میں پیچھے رہنے والے ہیں ؛ یہ حسن اور قتادہ نے بھی کہا ہے۔ (5) المستقدمین وہ جو جنگ کی صفوں میں آگے بڑھنے والے ہیں، اور المستاخرین جو ان میں پیچھے رہنے والے ہیں ؛ یہ حضرت سعید بن مسیب ؓ نے کہا ہے۔ (6) المستقدمین جو جہاد میں قتل ہونے کے سبب آگے گزرنے والے ہیں، اور المستاخرین وہ جو قتل نہیں کئے گئے ؛ یہ قرظی نے کہا ہے۔ (7) المستقدمین سے مرا داول الخلق ہیں، اور المستاخرین آخر الخلق ہیں ؛ یہ شعبی نے کہا ہے۔ (8) المستقدمین سے مراد نماز کی صفوں میں آگے نکلنے والے ہیں اور المستاخرین سے مراد ان میں پیچھے رہنے والے ہیں عورتوں کے سبب۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے ؛ کیونکہ وہ ہر موجود و معدوم کو جاننے والا ہے، اور وہ انہیں جاننے والا ہے جنہیں اس نے پیدا کیا ہے اور ہر اس شے کو جسے وہ یوم قیامت تک پیدا کریگا، مگر آٹھواں قول آیت کے نازل ہونے کا سبب ہے جیسا کہ اسے نسائی اور ترمذی نے ابو الجوزاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے بیان کیا ہے : ایک عورت جو کہ حسین ترین لوگوں میں سے ایک تھی وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہی تھی، تو قوم میں سے بعض آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ وہ پہلی صف میں ہوگئے تاکہ وہ اسے نہ دیکھیں، اور بعض پیچھے ہوگئے یہاں تک کہ وہ پیچھے والی صف میں ہوگئے، اور جب رکوع کرتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے (اس کی طرف) دیکھتے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ولقد علمنا المستقدمین منکم ولقد علمنا المستاخرین اور یہ ابو الجوزاء سے مروی ہے اور اسے حضرت ابن عباس ؓ نے ذکر نہیں کیا، اور یہی اصح ہے۔ مسئلہ نمبر 2: یہ نماز میں اول وقت کی فضیلت پر اور پہلی صف کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے، حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اگر لوگ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑا ہونے کے (اجر وثواب کو) جان لیں تو پھر وہ اسے نہ پاسکیں مگر یہ کہ وہ اس پر قرعہ اندازی کریں تو یقیناً اس پر قرعہ اندازی کرتے “۔ پس جب ایک آدمی زوال کے وقت آئے اور پہلی صف میں امام کے پڑوس میں آکر بیٹھ جائے، تو اس نے فضیلت کے تین مراتب حاصل کرلئے : اول وقت صف اول امام کی مجاورت۔ اور اگر کوئی زوال کے وقت آیا اور دوسری صف میں آکر بیٹھ گیا یا پہلی صف سے ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گیا، تو اس نے اول وقت کی فضیلت کو پالیا اور پہلی صف اور امام کی مجاورت کی فضیلت کو نہ پاسکا۔ اور اگر کوئی زوال کے وقت آیا اور پہلی صف میں اس جگہ بیٹھ گیا جو امام کے قریب نہ تھی تو اسنے اول وقت اور صف اول کی فضیلت کو حاصل کرلیا اور امام کی مجاورت اس سے فوت ہوگئی۔ اور اگر کوئی زوال کے بعد آیا اور پہلی صف میں آکر بیٹھ گیا تو اس سے اول وقت کی فضیلت جاتی رہی اور اس نے پہلی صف اور امام کی مجاورت کو پالیا۔ اور اسی طرح امام کی مجاورت ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی، بلاشبہ یہ ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ” چاہئے کہ میرے قریب تم میں سے عاقل بالغ لوگ ہوں “ الحدیث۔ پس جو امام کے پیچھے قریب ہوا سے چاہئے کہ اس صف سے متصف ہو۔ اور اگر کوئی دوسرا اس کی جگہ آبیٹھے تو اسے پیچھے کردیا جائے اور وہ اس جگہ آگے آجائے ؛ کیونکہ صاحب شرع کے حکم سے یہ اس کا حق ہے، جیسا کہ محراب امام کی جگہ ہے چاہے وہ پہلے آئے یا بعد میں، یہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی پر حضرت عمر ؓ کے اس قول کو محمول کیا جائے گا : اے فلاں ! تو پیچھے ہو، اے فلاں ! تو آگے ہو ؛ پھر آپ بڑھتے اور تکبر کہی جاتی۔ اور حضرت کعب ؓ سے روایت ہے کہ اس امت میں سے ایک آدمی سجدہ کرتے ہوئے گر جائے گا اور اس کو بخش دیا جائے گا جو اس کے پیچھے ہوگا۔ اور حضرت کعب ؓ اسی امید پر مسجد کی پچھلی صف کا قصد کرتے تھے، اور ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ تورات میں اسی طرح پایا ہے۔ اسے حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ذکر کیا ہے۔ اور اس باب سے متعلق زیادہ تفصیلی بیان سورة الصافات میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 3: اور جس طرح یہ آیت نماز میں صف اول کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، پس اسی طرح یہ جنگ میں بھی صف اول کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے ؛ کیونکہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونا، اور بندے کا اپنی جان کو اللہ تعالیٰ سے فروخت کردینا کوئی عمل اس کے مساوی نہیں ہوسکتا ؛ پس اس کی طرف آگے بڑھنا افضل ہے، اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ اس میں کوئی خفا ہے۔ اور کوئی بھی رسول اللہ ﷺ کے سامنے کوئی عیب یا برائی بیان نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ آپ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ دلیر اور شجاع تھے۔ حضرت براء ؓ نے بیان کیا ہے : قسم بخدا ! جب غصے کے سبب آپ کا رنگ سرخ ہوتا تو ہم آپ سے بچتے تھے۔ اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ جاتا۔
Top