Al-Qurtubi - Al-Hijr : 21
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ١٘ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر عِنْدَنَا : ہمارے پاس خَزَآئِنُهٗ : اس کے خزانے وَمَا : اور نہیں نُنَزِّلُهٗٓ : ہم اس کو اتارتے اِلَّا : مگر بِقَدَرٍ : اندازہ سے مَّعْلُوْمٍ : معلوم۔ مناسب
اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں
آیت نمبر 21 قولہ تعالیٰ : وان من شیئ الا عندنا خزآینہ یعنی، مخلوق کے رزقوں اور ان کے منافع میں سے کوئی شے نہیں ہے مگر ہمارے پاس اس کے خزانے بھرے پڑے ہیں ؛ مراد آسمان سے نازل کی جانے والی بارش ہے، کیونکہ اسی کے ساتھ ہر شے اگتی ہے۔ حسن نے کہا ہے : بارش ہر شے کا خزانہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ خزائن سے مراد مفاتیح (چابیاں) ہیں، یعنی رزق کی چابیاں آسمان میں ہیں ؛ یہ کلبی (رح) نے کہا ہے۔ مفہوم دونوں کا ایک ہے۔ وما ننزلہ الا بقدر معلوم یعنی البتہ ہم اسے نازل نہیں کرتے مگر اپنی مشیت کے مطابق اور اتنی مقدار میں جتنی مخلوق کو اس کی حاجت اور ضرورت ہوتی ہے ؛ جیسا کہ فرمایا : ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولکن ینزل بقدر ما یشآء (الشوری :27) (اور اگر کشادہ کردیتا ہے اللہ تعالیٰ رزق کو اپنے (تمام) بندوں کیلئے تو وہ سرکشی کرنے لگتے ہیں زمین میں، لیکن وہ اتارتا ہے ایک اندازے سے جتنا چاہتا ہے) ۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ اور حکم بن عتیبہ وغیرہما سے روایت ہے کہ ایک سال دوسرے سال کی نسبت بارش کے اعتبار سے زیادہ اور کثیر نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ جیسے چاہے اسے تقسیم کرتا ہے، پس ایک قوم کو بارش عطا کی جاتی ہے اور دوسروں کو محروم رکھا جاتا ہے۔ اور بسا اوقات سمندروں اور چٹیل میدانوں میں بارش ہوتی ہے۔ اور الخزائن الخزانۃ کی جمع ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے جس میں انسان اپنا مال چھپا کر رکھتا ہے (محفوظ رکھتا ہے) اور الخزانۃ بھی خزن یخزن کا مصدر ہے۔ اور ہر وہ شے جو انسان کے خزانہ میں ہے وہ اس کے لئے تیار کی گئی ہے، پس اسی طرح جس چیز پر رب قدرت رکھتا ہے تو گویا وہ اسی کے پاس تیار کی گئی ہے ؛ یہ علامہ قشیری نے کہا ہے۔ اور جعفر بن محمد نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : عرش میں ہر اس شے کی مثال موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے بحر وبر میں تخلیق فرمائی ہے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تاویل ہے : وان من شیء الا عندنا خزآینہ اور اس میں انزال بمعنی انثاء (بنانا) اور ایجاد کرنا ہے ؛ جیسا کہ اس ارشاد میں ہے : وانزل لکم من الانعام ثمنیۃ ازواج (الزمر :6) (اور پیدا کئے تمہارے لئے جانوروں میں سے آٹھ جوڑے) ۔ اور یہ ارشاد گرامی ہے : وانزلنا الحدید فیہ باس شدید (الحدید :25) (اور ہم نے پیدا کیا ہے لوہے کو اس میں بڑی قوت ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انزال بمعنی اعطاء (عطا کرنا) ہے، اور اس کا نام انزال اس لئے رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام آسمان سے ہی نازل ہوتے ہیں۔
Top