Al-Qurtubi - Al-Hijr : 14
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر فَتَحْنَا : ہم کھول دیں عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : کوئی دروازہ مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَظَلُّوْا : وہ رہیں فِيْهِ : اس میں يَعْرُجُوْنَ : چڑھتے
اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھول دیں اور اس میں چڑھنے بھی لگیں
آیت نمبر 14 تا 15 کہا جاتا ہے : ظل یفعل کذا، یعنی وہ اسے دن بھر کرتا رہا۔ اور مصدر الظلول ہے۔ یعنی اگر وہ علامات اور نشانیاں جو انہوں نے تجویز کی ہیں پوری کر بھی دی جائیں تو وہ یقیناً کفر پر مصر رہیں اور خیالات (اور توہمات) کے ساتھ مشغول ہوجائیں، جیسا کہ قرآن معجز کے بارے انہوں نے کہا : بیشک یہ سحر اور جادو ہے۔ یعرجون یہ عرج یعرج سے ہے اس کا معنی چڑھنا ہے۔ اور المعارج سیڑھیوں کو کہتے ہیں، یعنی اگر وہ آسمان کی طرف چڑھ جائیں اور ملکوت و ملائکہ کا مشاہدہ کرلیں تو پھر بھی یقیناً کفر پر اصرار کریں ؛ یہ حسن (رح) وغیرہ سے مروی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ علیھم میں ضمیر مشرکین کے لئے ہے اور فظلوا میں ضمیر ملائکہ کے لیے ہے، وہ آتے جاتے رہیں، یعنی اگر ان کے لیے عیاں کردیا جائے یہاں تک کہ وہ آسمان میں دروازوں کو دیکھنے لگیں کہ ان سے ملائکہ اوپر چڑھ رہے ہیں اور نیچے اتر رہے ہیں تو بھی وہ یقیناً کہیں گے : ہم نے اپنی آنکھوں کے ساتھ جو دیکھا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت قتادہ سے منقول ہے۔ اور سکرت کا معنی ہے سدت بالسحر (ہماری نظریں جادو کے ساتھ بند کردی گئی ہے) ؛ یہ حضرت ابن عباس اور حضرت ضحاک ؓ نے کہا ہے۔ اور حسن نے کہا ہے : سحرت (جادو کردیا گیا ہے) کلبی (رح) نے کہا ہے : أغشیت أبصارنا (ہماری آنکھیں ڈھانپ دی گئی ہیں) اور انہیں سے یہ بھی ہے عمیت (ہماری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں) ۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : أخذت (انہیں پکڑ لیا گیا ہے) ۔ اور مؤرج نے کہا ہے : دیربنا (ہمیں چکرا دیا گیا ہے) یہ دوران سے ہے ؛ یعنی ہماری آنکھیں نشے میں ہوگئی ہیں۔ جو یبر نے کہا ہے : خدعت ہماری آنکھوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ اور ابو عمرو بن العلاء نے کہا ہے : سکرت انہیں ڈھانپ دیا گیا ہے اور ان پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اسی معنی میں شاعر کا قول ہے : وطلعت شمس علیھا مغفر وجعلت عین الحرور تسکر اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : سکرت، جست (وہ روک دی گئی ہیں) ۔ اور اس معنی میں اوس بن حجر کا قول ہے : فصرت علی لیلۃ ساھرۃ فلیست بطلق ولا ساکرۃ میں (مفسر کہتا ہوں : یہ تمام اقوال باہم قریب قریب ہیں اور ان تمام کو آپ کا یہ قول جامع ہے : منعت (ہماری نظریں روک دی گئی ہیں ؛ انہیں منع کردیا گیا ہے) ابن عزیز نے کہا ہے : سکرت ابصارنا ہماری نظریں بند کردی گئی ہیں۔ یہ تیرے اس قول سے ماخوذ ہے : سکرت النھر جب تو نہر کو بند کر دے۔ اور کہا جاتا ہے : یہ سکر الشراب (شراب کا نشہ) سے ماخوذ ہے، گویا کہ آنکھ کو وہ کچھ لاحق ہوجاتا ہے جو شراب پینے والے کو لاحق ہوتا ہے جبکہ وہ نشے میں ہو۔ اور ابن کثیر نے سکرت تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے تشدید کے ساتھ۔ ابن الاعرابی نے کہا ہے : سکرت بمعنی ملئت ہے (بھر دی گئیں) اور مہدوی نے کہا ہے : سکرت میں تخفیف اور تشدید دونوں بالکل ظاہر ہیں، تشدید تکثیر کے لئے ہے اور تخفیف اپنے معنی کو ادا کرتی ہے، اور معروف یہ ہے کہ سکر متعدی نہیں ہوتا۔ ابو علی نے کہا ہے : جائز ہے کہ اسے بصر میں متعدی سنا گیا ہو۔ اور جنہوں نے سکرت پڑھا ہے چونکہ انہوں نے اس کے مشابہ قرار دیا ہے جو کچھ نشے کی حالت میں ان کی آنکھوں کو پیش کرتا ہے، کیونکہ یہ نشے کے قائم مقام ہے کیونکہ اس صورت میں نشہ موجود نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہ تخفیف کے ساتھ ہو تو سکر الشراب سے ماخوذ ہے، اور اگر تشدید کے ساتھ ہو تو أخذت (جادو کردیا گیا) کے معنی میں ہے، ان دونوں کو الماوردی نے ذکر کیا ہے۔ اور نحاس نے کہا ہے : حضرت مجاہد اور حسن رحمہا اللہ تعالیٰ کی قرأت میں سے معروف سکرت تخفیف کے ساتھ ہے۔ حسن نے کہا ہے : بمعنی سحرت ہے (یعنی جادو کردیا گیا) اور ابو عبیدہ نے ابو عبیدہ سے بیان کیا ہے کہ کہا جاتا ہے : سکرت ابصارھم جب ان پر بصارت کی کمزوری چھا جائے یہاں تک کہ وہ نہ دیکھ سکیں۔ اور فراء نے کہا ہے : جس نے سکرت پڑھا ہے اس نے اسے سکور الریح (ہوا کا پر سکون ہونا) سے لیا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ اقوال باہم قریب قریب ہیں۔ اس میں اصل وہ ہے جو ابو عمر و بن العلاء (رح) تعالیٰ نے کہا ہے، انہوں نے کہا : یہ السکر فی الشراب (شراب میں نشہ ہونا) سے ماخوذ ہے۔ اور یہ قول اچھا ہے ؛ یعنی ان پر وہ شے چھا گئی جس نے ان کی آنکھوں کو ڈھانپ لیا جیسے نشے والے پر وہ شے چھا جاتی ہے جو اس کی عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور سکور الریح کا معنی ہوا کا ساکن ہونا اور اس کے تیزی کے بعد کم ہونا ہے پس یہ تحییر (حیرت میں ڈالنا) کے معنی کی طرف راجع ہے۔
Top