پس الحمد للہ رب العلمین کا مطلب یہ ہے کہ میں نے خود اپنی حمد کی ہے اس سے پہلے کہ عالمین میں سے کوئی میری حمد کرتا اور میں نے اپنی خود حمد ازل میں بغیر کسی علت کے کی تھی اور مخلوق جو میری حمد کرتی ہے وہ علل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : مخلوق جس کو کمال کلی عطا نہیں کیا گیا اس کا اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں تاکہ وہ اپنے لئے منافع حاصل کرے اور اپنے آپ سے نقصان دور کرے۔
بعض علماء نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کے بندے اس کی حمد سے عاجز ہیں تو اس نے اپنی حمد ازل میں خود ہی کی۔ پس اس کے بندوں نے انتہائی کوشش کی اس کی حمد سے عاجزی کا اظہار ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ سید المرسلین ﷺ نے کیسے عجز کا اظہار فرمایا : ارشاد فرمایا : لا احصو ثناء علیک۔ (1) (میں تیری ثناء نہیں کرسکتا) ۔
اور یہ شعر پڑھو :
اذا نحن اثنینا علیک بصالح فانت کما نثنی وفوق الذی نثنی
اور جب ہم کسی کرم کی وجہ سے تیری ثنا کرتے ہیں تو تو واقعی اسی طرح ہے جس طرح ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تو اس سے بلند مرتبہ ہے جو ہم تیری تعریف کرتے ہیں۔
بعض علماء نے فرمایا : اس نے ازل میں اپنی حمد خود فرمائی جب اس نے اپنے بندوں پر نعمتوں کی کثرت کو دیکھا اور ان کے شکر کے قیام کے عجز کو دیکھا تو اس نے اپنی تعریف کی اور ان کی طرف سے اپنی تعریف خود کی تاکہ ان کے سامنے نعمت مزید خوشگوار ہوجائے اس حیثیت سے کہ اس نے لوگوں سے احسان کا بوجھ بھی ساقط کردیا۔
مسئلہ نمبر 7: ساتوں قراء اور جمہور لوگوں کا الحمد کی دال پر رفع پڑھنے میں اجماع ہے۔ سفیان بن عیینہ، رؤبہ بن عجاج سے الحمد میں دال کا نصب مروی ہے اور یہ فعل کے اظہار کی تقدیر پر ہے (2) ۔ بعض علماء نے فرمایا : الحمد للہ رفع کے ساتھ مبتدا اور خبر میں اور خبر کی سبیل فائدہ دینا ہوتا ہے۔ اس میں کیا فائدہ ہے ؟ جواب یہ ہے کہ سیبویہ نے کہا : جب کوئی شخص الحمد للہ رفع کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس میں اسی قسم کا معنی ہوتا ہے جو تیرے اس قول میں ہے : حمدت اللہ حمد اً مگر وہ جو الحمد کو رفع دے رہا ہے وہ یہ خبر دے رہا ہے وہ یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی طرف سے حمد اور تمام مخلوق کی طرف سے حمد للہ کے لئے ہے اور وہ جو الحمد کو نصب دیتا ہے وہ خبر دیتا ہے کہ تنہا اس کی طرف سے حمد اللہ کے لئے ہے۔ سیبویہ کے علاوہ علماء نے فرمایا : وہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کے عفو، مغفرت، اس کی تعظیم اور اس کی بزرگی بیان کرنے کے لئے کرتا ہے اور خبر کے معنی کے خلاف ہے، اس میں سوال کا معنی ہے۔ حدیث میں ہے “ جس کو میرے ذکر نے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا میں اس سے افضل دوں گا جو میں سوال کرنے والوں کو دوں گا ” (3) ۔
بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا اپنی حمدو ثناء کرنا بندوں کو یہ سکھانے کے لئے ہے۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ تم الحمد للہ کہو۔ طبری نے کہا : الحمد للہ تعریف ہے اس کے ساتھ اس نے اپنی ہی تعریف کی اور اس کے ضمن میں اپنے بندوں کو حکم فرمایا کہ تم بھی اس کی تعریف کرو۔ گویا یوں فرمایا : الحمد للہ کہو۔ اسی طرح ہوگا کہ ایاک نعبد کہو۔ عرب اس طرح حذف کرتے ہیں کہ ظاہر کلام اس حذف پر دلالت کرتا ہے۔ جس طرح شاعر نے کہا :
واعلم اننی ساکون رمسا اذا سار النواعج لا یسیر
فقال السائلون لمن حفرتم فقل القائلون لھم وزیر
میں جانتا ہوں کہ ہوجاؤں گا جب تیز رفتار اونٹنیاں نہیں چلیں گی۔ سوال کرنے والوں نے کہا کس کے لئے قبر کھود رہے ہو جواب دینے والوں نے کہا ان کا وزیر ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس کے لئے قبر کھودی جا رہی ہے وہ وزیر ہے۔ پس اس کو حذف کردیا گیا کیونکہ ظاہر کلام اس پر دلالت کر رہا تھا اور یہ عرب کلام میں کثیر ہے (1) ۔ ابن ابی عبلہ سے الحمد للہ دال اور لام کے ضمہ کے ساتھ پڑھنا مروی ہے اس بنا پر کہ دوسرا حرف اعراب میں پہلے حرف کو تابع کردیا گیا ہو۔ با کا لفظ متجانس ہوجائے اور لفظوں میں تجانس کا طلب کرنا عربوں کے کلام میں بہت زیادہ ہے۔ مثلاً اجؤک، وھو منحدر من الجبل (o) ۔ اس میں دال اور جیم کو ضمہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ شاعر کا قول ہے : اضرب السآمین امک ھابل۔ اس مصرعہ میں ہمزہ کے ضمہ کی وجہ سے نون ضمہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اہل مکہ کی قراءت میں مردفین راء پر ضمہ پڑھا گیا ہے میم کی اتباع کرتے ہوئے۔ اسی طرح مقتلین میں میم کی اتباع میں قاف پر ضمہ پڑھا گیا ہے۔ اس طرح عرب کہتے ہیں : لامک یعنی لام کی اتباع میں ہمزہ کو کسرہ دیتے ہیں۔ نعمان بن بشیر کے لئے یہ کہا :
ویل امھا فی ھواء الجو طالبۃ ولا کھذا الذی فی الارض مطلوب
اس شعر میں ہمزہ کو کسرہ دیا ہے۔
اصل میں ویل، لامھا تھا پہلے لام کو حذف کیا گیا اب کسرہ کے بعد ہمزہ پر ضمہ بھاری تھا پھر اس ہمزہ کو لام کی طرف منتقل کردیا پھر لام کو میم کی طرح حرکت دی گئی۔ حسن بن ابی الحسن اور زید بن علی سے مروی ہے، الحمد للہ۔ یعنی دال کے کسرہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے پہلے حرف کو حرکت میں دوسرے حرف کی اتباع کرائی گئی (2) ۔
مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے رب العلمین۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا مالک ہے، ہر چیز جس کا وہ مالک ہے وہ اس کا رب ہے۔ پس الرب کا مطلب المالک ہے اور “ الصحاح ” میں الرب، اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ اس لئے بغیر نسبت واضافت کے کسی دوسرے کے لئے نہیں بولا جائے گا، لوگ زمانہ جاہلیت میں مالک کے لئے رب کا لفظ بولتے تھے۔ حارث بن حلزہ نے کہا :
وھو الرب والشھید علی یوم الحیارین والبلاء بلاء
اس میں رب، مالک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
رب کا معنی سردار بھی ہوتا ہے۔ اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں استعمال ہوا ہے : اذکرنی عند ربک (یوسف : 42) (یعنی اپنے مالک کے پاس میں ذکر کرنا) اور حدیث میں ہے ان تلد الا مۃ رب تھا۔ (3) ۔ یعنی لونڈی اپنے سردار کو جنم دے گی۔ اور ہم نے اپنی کتاب “ التذکرہ ” میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور الرب سے مراد مصلح، مدبر، جابر اور قائم (نگران) بھی ہوتا ہے۔ الہروی وغیرہ نے کہا : جو شخص کسی شے کی اصلاح کرتا ہے اور اسے مکمل کرتا ہے اس کے لئے بولا جاتا ہے : ربہ یریہ فھو رب لہ وراب۔ اسی وجہ سے علماء کو ربانیون کہا جاتا ہے جو کتب کے مطالعہ میں رہتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے ھل لک من نعمۃ تربھا علیہ (1) ۔ یعنی کیا تیرے پاس کوئی نعمت ہے جس کی تو دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے اور الرب بمعنی معبود بھی استعمال ہوتا ہے۔ شاعر کا قول ہے :
ارب یبول الثعلبان براسہ لقد ذل من بالت علیہ الثعالب (2)
اور یہ لفظ زبادتی اور کثرت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ رباہ وربیہ وربتہ (یعنی اس سے اسے زیادہ کردیا) یہ معنی نحاس نے بیان کیا ہے۔ “ الصحاح ” میں ہے : رب فلان ولدہ یربہ ربا، ورببہ وترببہ کا معنی ہے رباہ اور المویوب کا مطلب ہے الیربی۔ جس میں کثرت کی گئی ہو۔
مسئلہ نمبر 9: بعض علماء نے فرمایا : یہ اسم (رب) اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے کیونکہ اسے پکارنے والے کثرت سے پکارتے ہیں اور قرآن حکیم میں غور کرنے سے بھی یہی پتہ چلتا ہے جیسا کہ سورة آل عمران، سورة ابراہیم وغیرہ میں ہے۔ یہ وصف رب اور مربوب کے درمیان تعلق کا شعور دیتا ہے ساتھ ساتھ اپنے ضمن میں ہر حال میں مہربانی، رحمت اور مخلوق کے اس کی طرف محتاج ہونے کا بھی رکھتا ہے۔
اس کے اشتقاق کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : یہ التربیۃ سے مشتق ہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کا مدبر اور مربی ہے۔ اسی مفہوم میں ہے : ربائبکم التی فی حجورکم (النساء :23) (تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جو تمہاری گودوں میں (پرورش پارہی) ہیں) بیوی کی بیٹی کو ربیبۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا خاوند اس کی تربیت کرتا ہے۔ پس اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا مدبر اور مربی ہے تو یہ فعل کی صفت ہوگی اور اس بنا پر کہ الرب بمعنی مالک اور سردار ہے تو یہ ذات کی صفت ہوگی۔
مسئلہ نمبر 10: جب رب پر الف لام داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ خاص ہوتا ہے کیونکہ الف لام عہد کے لئے ہوگا۔ اور اگر ہم الف لام حذف کردیں تو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان مشترک ہوگا۔ کہا جاتا ہے : اللہ رب العباد، (اللہ بندوں کا رب ہے) زید رب الدار (زید گھر کا مالک ہے) اللہ تعالیٰ رب الارباب ہے، وہ مالک ومملوک کا مالک ہے وہ ہر ایک کا خالق و رازق ہے۔ اس کے علاوہ ہر رب، غیر خالق اور غیر رازق ہے ہر مملوک، مالک بنایا گیا ہے اس کے بعد کہ وہ مالک نہ تھا اور اس سے ملکیت چھینی بھی جائے گی، مخلوق میں سے مالک کسی چیز کا مالک ہوتا ہے اور کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ان معانی کے مخالف ہے اور خالق و مخلوق کی صفت کے درمیان یہی فرق ہے۔
مسئلہ نمبر 11: العلمین، اہل تاویل کا العلمین کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ قتادہ نے کہا : العالمون، جمع ہے عالم کی اور عالم سے مراد اللہ کے سوا ہر موجود ہے اور لفظاً اس کا واحد نہیں ہے جیسے رھط اور قوم کا لفظاً واحد نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ہر زمانہ کے لوگ عالم ہیں۔ یہ حسین بن فضل کا قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اتاتون الذکران من العلمین (الشعراء) اس آیت میں العلمین سے مراد لوگ ہیں۔ حجاج نے کہا :
فخندف ھامۃ ھذا العالم
جریر بن خطفی نے کہا :
تنصفہ البریۃ وھو سام ویضحی العالمون لہ عیالا
اس شعر میں العالمون لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا : عالمون سے مراد جن وانس ہیں اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : لیکون للعلمین نذیرا (الفرقان) (اور آپ ﷺ جن وانس کو ڈرانے والے تھے نہ کہ چوپاؤں کو) ۔ فراء اور ابو عبیدہ نے کہا : العالم سے مراد ہر ذی عقل ہے اور یہ چار امم ہیں : انسان، جن، ملائکہ اور شیاطین۔ بہائم، چوپاؤں کو عالم میں نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ جمع ذی عقل کی جمع ہوتی ہے۔
اعثی نے کہا :
ما ان سمعت بمثلھم فی العالمینا میں نے ذی عقل لوگوں میں ان کی مثل نہیں سنا۔
زید بن اسلم نے کہا : اس سے مراد وہ ہیں جن کو رزق دیا جاتا ہے۔ اسی قسم کا قول ابو عمروبن علاء کا ہے کہ وہ روحانیون ہیں۔ حضرت ابن عباس کے قول کا معنی بھی یہی ہے، ہر ذی روح جو زمین کی سطح پر چلا۔ وہب بن منبہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کے اٹھارہ ہزار عالم ہیں دنیا ان عالموں میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری نے کہا : اللہ تعالیٰ کے چالیس ہزار عالم ہیں۔ دنیا، مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے۔ مقاتل نے کہا : عالمون، اسی ہزار عالم ہے، چالیس ہزار عالم خشکی میں ہیں اور چالیس ہزار عالم سمندر میں ہیں۔ ربیع بن انس نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جن ایک عالم ہے، انسان ایک عالم ہے، اس کے علاوہ زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں پندرہ ہزار عالم ہیں اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنی عبادت کے لئے تخلیق فرمایا ہے۔ میں کہتا ہوں : ان اقوال میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ عالم ہر مخلوق وموجود کو شامل ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : قال فرعون وما رب العلمین قال رب السموت والارض وما بینھما (الشعراء)
اور یہ علم اور علامۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ یہ اپنے موجد پر دلالت کرتا ہے اسی طرح زجاج نے کہا : عالم سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں پیدا فرمایا۔ خلیل نے کہا : العلم، العلامۃ اور المعلم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرے۔ عالم چونکہ دال ہے اپنے خالق ومدبر پر اور یہ واضح ہے۔
ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت جنید کے سامنے کہا : الحمد للہ تو حضرت جنید نے اسے کہا : اسے مکمل کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تم کہو : رب العلمین اس شخص نے پوچھا : العالمین کون ہیں حتیٰ کہ تم اللہ کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہو ؟ حضرت جنید نے فرمایا : اے بھائی ! تم کہو کیونکہ حادث کا جب قدیم کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے تو حادث کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا
مسئلہ نمبر 12: رب میں رفع اور نصب جائز ہے۔ نصب، مدح کی بنا پر اور رفع قطع (1) کی بنا پر۔ یعنی عبارت یوں ہوگی : ھو رب العالمین۔