Mutaliya-e-Quran - Nooh : 10
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ
فَقُلْتُ : پھر میں نے کہا اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنے رب سے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ غَفَّارًا : بخشنے والا ہے
میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے
[فَقُلْتُ : تو میں نے کہا ] [اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ : تم لوگ مغفرت مانگو اپنے رب سے ] [اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا : بیشک وہ بہت بخشنے والا ہے ] (آیت۔ 10) کَانَ کی خبر ہونے کی وجہ سے غَفَّارًا حالت نصب میں ہے۔ کَانَ کا ترجمہ حال میں ہوگا کیونکہ یہ آفاقی صداقت کا بیان ہے (دیکھیں آیت ۔ 2:49 نوٹ۔ 2) نوٹ۔ 4: آیت۔ 10 تا 12 ۔ جو بات کہی گئی ہے کہ اللہ سے مغفرت کے طلبگار بنو تو اللہ تعالیٰ تمہیں معیشت اور افرادی قوت کی فراوانی عطا فرمائے گا، یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ مثلاً المائدہ۔ 66، الاعراف۔ 96، ھود۔ 3 ۔ 52، طٰہٰ ۔ 124 ۔ وغیرہ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت میں ہی نہیں، دنیا میں بھی انسان کی زندگی تنگ کردیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی قوم ایمان و تقوٰی اور احکام الٰہی کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرلے تو یہ آخرت ہی میں نافع نہیں بلکہ دنیا میں بھی اس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے اور پھر سورة نوح کی یہ آیات پڑھ کر لوگوں کو سنا دیں۔ (تفہیم القرآن)
Top