Mutaliya-e-Quran - As-Saff : 4
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحِبُّ الَّذِيْنَ : محبت رکھتا ہے ان لوگوں سے يُقَاتِلُوْنَ فِيْ : جو جنگ کرتے ہیں۔ میں سَبِيْلِهٖ : اس کے راستے (میں) صَفًّا : صف بستہ ہو کر۔ صف بنا کر كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ : گویا کہ وہ دیوار ہیں۔ عمارت ہیں مَّرْصُوْصٌ : سیسہ پلائی ہوئی
اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں
[ان اللّٰهَ يُحِبُّ : بیشک اللہ پسند کرتا ہے ][ الَّذِينَ يُقَاتِلُوْنَ : ان لوگوں کو جو قتال کرتے ہیں ][ فِيْ سَبِيْلِهٖ : اس کی راہ میں ][ صَفًّا : صف باندھتے ہوئے ][ كَانهُمْ : جیسے کہ وہ لوگ ][ بُنْيَان مَّرْصُوْصٌ: ایک مضبوط کی ہوئی عمارت ہیں ] ر ص ص [رصًّا : (ن) ایک کو دوسرے سے جوڑنا۔ چمٹانا۔][مَرْصُوْصٌ: اسم المفعول ہے جوڑا ہوا۔ چھٹایا ہوا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 4 ۔] (آیت۔ 4) صَفًّا حال ہے۔ نوٹ۔ 1 : صحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپس میں مذاکرہ کیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے تو ہم اس پر عمل کریں۔ ان میں سے بعض نے کچھ ایسے الفاظ بھی کہے کہ اگر ہمیں معلوم ہوجائے تو ہم اپنی جان و مال سب اسی کے لیے قربان کردیں گے۔ انہوں نے چاہا کہ کوئی جا کر رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کرے مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ لوگ اسی حالت پر تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو نام بنام اپنے پاس بلایا جب یہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے پوری سورة صف پڑھ کر سنائی جو اسی وقت آپ پر نازل ہوئی تھی۔ اس سورة نے یہ بھی بتادیا کہ احب الاعمال جہاد فی سبیل اللہ ہے اور ساتھ ہی تنبیہہ کی گئی کہ کسی مومن کے لیے ایسے دعوے کرنا درست نہیں۔ اسے کیا معلوم کہ وقت پر وہ اپنے ارادے کو پورا کرسکے گا یا نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے کام کا دعوٰی کرنا جس کے کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو، یہ تو گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا سبب ہے۔ اور جہاں کرنے کا ارادہ ہو وہاں بھی اپنی قوت و قدرت پر بھروسہ کر کے دعوٰی کرنا ممنوع و مکروہ ہے۔ رہا معاملہ دعوت و تبلیغ کا کہ جو کام آدمی خود نہیں کرتا اس کی نصیحت دوسروں کو کرے، وہ اس آیت کے مفہوم میں تو شامل نہیں۔ اس کے احکام دوسری آیات اور احادیث میں مذکور ہیں۔ جن میں وعظ و نصیحت کرنے والوں کو اس بات پر شرمندہ کیا گیا ہے کہ لگوں کو کسی نیک کام کی دعوت دو اور خود اس پر عمل نہ کرو۔ مقصد یہ ہے کہ جس کام کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو خود بھی اس پر عمل کرو۔ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ جب خود نہیں کرتے تو دوسروں کو کہنا بھی چھوڑ دو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس نیک کام کو خود کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہے، اس کی طرف دوسروں کو بلائے اور نصیحت کرنے کا سلسلہ نہ چھوڑے۔ (معارف القرآن) نوٹ۔ 2 : اس ارشاد کا ایک مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہیے۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں۔ نبی ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتا ہو۔ یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اسی کی خلاف ورزی کرے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ چار صفتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منفق ہے اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب بولے تو جھوٹ بولے، اور جب عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے یعنی اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالے۔ فقہائے اسلام کا اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ کوئی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرے، مثلاً کسی چیز کی نذر مانے، یا بندوں سے کوئی معاہدہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وفا کرنا لازم ہے الایہ کہ وہ کام بجائے خود گناہ ہو جس کا اس نے عہد یا وعدہ کیا ہو۔ گناہ ہونے کی صورت میں وہ کام تو نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کی پابندی سے آزاد ہونے کے لیے کفارہ ادا کرنا چاہیے جو سورة مائدہ آیت۔ 89 ۔ میں بیان کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top