Mutaliya-e-Quran - Al-An'aam : 7
وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَلَوْ نَزَّلْنَا : اور اگر ہم اتاریں عَلَيْكَ : تم پر كِتٰبًا : کچھ لکھا ہوا فِيْ : میں قِرْطَاسٍ : کاغذ فَلَمَسُوْهُ : پھر اسے چھو لیں بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے لَقَالَ : البتہ کہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ هٰذَآ : نہیں یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
اے پیغمبرؐ! اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے
وَلَوْ [ اور اگر ] نَزَّلْنَا [ ہم اتارتے ] عَلَيْكَ [ آپ پر ] كِتٰبًا [ کوئی کتاب ] فِيْ قِرْطَاسٍ [ کسی ورق میں (لکھی ہوئی ) ] فَلَمَسُوْهُ [ پھر وہ چھوتے اس کو ] بِاَيْدِيْهِمْ [ اپنے ہاتھوں سے ] لَقَالَ [ تو ضرور کہتے ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْٓا [ کفر کیا ] اِنْ [ نہیں ہے ] هٰذَآ [ یہ ] اِلَّا [ مگر ] سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا جادو ] ق ر ط س (رباعی ) ۔ قرطاسا ۔ نشانے پر پہنچنا ۔ قرطاس ۔ ج ، قراطیس ۔ اسم ذات ہے ۔ ہر وہ چیز جس پر لکھا جائے ، کاغذ ، ورق ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ اور تجعلونہ ۔ قراطیس [ تم لوگ بناتے ہو اس کے اوراق یعنی میں نقل کر رکھا ہے ] 6:91 ۔ ح ی ق (ض) حیقا ۔ کسی چیز کو گھیرے میں لینا ، چھاجانا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ ترکیب : فلمسوہ کی ضمیر مفعولی کو کتابا کے لئے مانیں یاقرطاس کے لئے ، مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ولو جعلنہ کی ضمیر مفعولی رسولا کے لئے ہے جو علیک کے حوالے سے ہے ۔ ماکانوا بہ یستھزء ون ، یہ پورا جملہ فحاق کا فاعل ہے جبکہ بالذین سخروا منہم اس کا مفعول ہے ۔ منہم کی ضمیر برسل کے لئے ہے ۔ عاقبۃ مؤنث غیر حقیقی ہے اس کئے کانت کے بجائے کان بھی جائز ہے ۔ نوٹ :1 ۔ علم الیقین کی اہمیت پر آیت نمبر 2:55 کے نوٹ ۔ 3 میں اور آیت نمبر 2:118 کے نوٹ 3 میں بات ہوچکی ہے ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ پہلے آپ ان کو پڑھ لیں، اس کے بعد مندرجہ ذیل نوٹ پڑھیں جو ہم تفہیم القرآن سے نقل کررہے ہیں ۔ زیرمطالعہ آیت نمبر 8 میں فرمایا کہ اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے پھر سارے معاملے کا فیصلہ کردیا جاتا اور ان کو پھر کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلینے کے لئے جو مہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اس وقت تک ہے جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے ۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا، پھر مہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا ۔ کیونکہ اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا ۔ دنیا کی زندگی ایک امتحان کا زمانہ ہے اور امتحان اس بات کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر ، عقل وفکر کے صحیح استعمال سے ، اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں ۔ اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لاکر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں ۔ اس امتحان کے لئے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے اور دنیوی زندگی ، جو دراصل مہلت امتحان ہے ، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب غیب ہے ۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا، یہ مہلت لازم ختم ہوجائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا ۔
Top