Mutaliya-e-Quran - Al-Waaqia : 57
نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ
نَحْنُ : ہم نے خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا ہم نے تم کو فَلَوْلَا : پس کیوں نہیں تُصَدِّقُوْنَ : تم تصدیق کرتے ہو۔ تم یقین کرتے۔ سچ مانتے
ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟
[نَحْنُ : ہم نے ہی ] [خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا ہے تم لوگوں کو ] [فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ : پھر تم لوگ کیوں نہیں تصدیق کرتے (اس کی) ] نوٹ۔ 1: آیت ۔ 57 سے 74 تک جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں بیک وقت آخرت اور توحید دونوں پر استدلال کیا گیا ہے ۔ انسان اگر صرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کس طرح پیدا ہوا ہے تو اسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے اور نہ اس کی تعلیم آخرت میں۔ استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچہ کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش ، ہر بچے کی الگ صورت گری اور ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب سے رکھنا ، کیا یہ سب کچھ خدائے واحد کے سوا کسی اور کا کام ہے ؟ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو تو وہ خود محسوس کرے گا کہ انسان پورا کا پورا خدا کا ہی ساختہ وپردافتہ ہے ۔ توحید کی طرح یہ حقیقت آخرت کے معاملہ میں بھی فیصلہ کن ہے ، تمام انسان اسی طرح دنیا میں آئے ہیں اور وہ شب وروز اپنے ہی جیسے انسانوں کی پیدائش کا منظر دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے بعد صرف عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا انسانوں کو آج پیدا کررہا ہے وہ کل کسی وقت اپنے ہی پیدا کیے ہوئے ان انسانوں کو کسی اور طرح سے دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا ۔
Top