Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ خُذُوْا : تم لوگ پکڑوحِذْرَکُمْ : اپنے بچائو کے ہتھیار کو ] [ فَانْفِرُوْا : پھر تم لوگ نکلو ] [ ثُــبَاتٍ : گروہ در گروہ ] [ اَوِ : یا ] [ انْفِرُوْا : تم لوگ نکلو ] [ جَمِیْعًا : سب اکٹھا ] نر نَفَرَ ۔ یَنْفِرُ (ض) نَفْرًا : (1) کسی اہم کام کے لیے نکلنا ‘ جیسے سفر یا جنگ کے لیے۔ { وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّط قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاط } (التوبۃ :81) ” اور انہوں نے کہا مت نکلو گرمی میں۔ آپ کہہ دیجیے جہنم زیادہ سخت ہے بلحاظ گرمی کے۔ “ (2) نَفَرَ عَنْہُ : کسی چیز سے دور بھاگنا ‘ بدکنا ‘ نفرت کرنا۔ اِنْفِرْ (فعل امر) : تو نکل۔ آیت زیر مطالعہ۔ نُفُوْرٌ (نَفَرَ یَنْفِرُسے مصدر) : انتہائی بیزاری ‘ نفرت۔ { وَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلاَّ نُفُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ” اور یہ زیادہ نہیں کرتا ان کو مگر نفرت میں۔ “ نَفَرٌ : کسی کام کے لیے نکلنے والی چھوٹی جماعت۔ پھر ہر چھوٹی جماعت کے لیے عام ہے : { وَاِذْ صَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ } (الاحقاف :29) ” اور جب ہم نے پھیرا آپ ﷺ کی طرف جنوں میں سے ایک جماعت کو۔ “ نَفِیْرٌ : مستقل جماعت ‘ جتھا ۔ { وَاَمْدَدْنٰـکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وّجَعَلْنٰـکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا ۔ }(بنی اسرا ئیل) ” اور ہم نے تمہاری مدد کی مال سے اور بیٹوں سے اور ہم نے کردیا تم کو سب سے زیادہ بطور جتھے کے۔ “ اِسْتَنْفَرَ ۔ یَسْتَنْفِرُ (استفعال) اِسْتِنْفَارًا : ڈر کر بھاگ جانا ‘ بدکنا۔ مُسْتَنْفِرٌ (اسم الفاعل) : بدکنے والا۔ { کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ ۔ } (المدثّر) ” گویا کہ وہ بدکنے والے گدھے ہیں۔ “ ث ب ی ثَبٰی ۔ یَثْبِیْ (ض) ثَبْیًا : جمع کرنا ‘ اکٹھا کرنا۔ ثُبَۃٌ ج ثُبَاتٌ : اکٹھا کیا ہوا گروہ ‘ جماعت ‘ آیت زیر مطالعہ۔ ترکیب : ” ثُـبَاتٍ “ اور ” جَمِیْعًا “ دونوں حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہیں۔ ” شَھِیْدًا ‘ کَانَ “ کی خبر ہے۔ ” لَـیَقُوْلَنَّ “ کا مقولہ ” یٰلَیْتَنِیْ “ سے ” فَوْزًا عَظِیْمًا “ تک ہے۔ درمیان میں ” کَاَنْ لَّمْ “ سے ” مَوَدَّۃٌ“ تک جملہ معترضہ ہے۔ ” مَوَدَّۃٌ“ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ” تَـکُنْ “ کا اسم ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوا ہے ‘ جبکہ اس کی خبر ” مَوْجُوْدًا “ محذوف ہے۔ ” فَاَفُوْزَ “ کا فا سببیہ ہے جس نے مضارع کو نصب دی ہے۔ ” فَلْیُقَاتِلْ “ فعل امر غائب ہے اور اس کا فاعل ” اَلَّذِیْنَ “ ہے۔ ” وَمَنْ یُّـقَاتِلْ “ کا ” مَنْ “ شرطیہ ہے اور ” یُقَاتِلْ “ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا ہے۔ ” نُؤْتِیْہِ “ جواب شرط ہے ‘ لیکن ” سَوْفَ “ آجانے کی وجہ سے مجزوم نہیں ہوا۔ اگر ” سَوْفَ “ نہ آتا تو پھر یہ مجزوم ہو کر ” نُـؤْتِہٖ “ آتا۔
Top