Mutaliya-e-Quran - Al-Furqaan : 40
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا
وَلَقَدْ اَتَوْا : اور تحقیق وہ آئے عَلَي : پر الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْٓ : وہ جس پر اُمْطِرَتْ : برسائی گئی مَطَرَ السَّوْءِ : بری بارش اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا : تو کیا وہ نہ تھے يَرَوْنَهَا : اس کو دیکھتے بَلْ : بلکہ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے نُشُوْرًا : جی اٹھنا
اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہو گا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے
وَلَقَدْ اَتَوْا [ اور بیشک وہ لوگ آچکے ہیں ] عَلَي الْقَرْيَةِ الَّتِيْٓ [ اس بستی پر جس پر ] اُمْطِرَتْ [ برسائی گئی ] مَطَرَ السَّوْءِ ۭ[ برائی کی بارش ] اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا يَرَوْنَهَا ۚ [ تو کیا وہ لوگ دیکھتے نہیں تھے ان کو ] بَلْ [ بلکہ ] كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ [ وہ امید نہیں رکھا کرتے تھے ] نُشُوْرًا [ جی اٹھنے کی ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 40 ۔ سے معلوم ہوا کہ چونکہ وہ لوگ آخرت کے قائل نہیں تھے اس لئے ان آثار قدیمہ یعنی عبرت کے مقامات کا مشاہدہ انھوں نے محض ایک تماشائی کی حیثیت سے کیا اور ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کے قائل کی نگاہ اور اس کے منکر کی نگاہ میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ ایک تماشا دیکھتا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تاریخ مرتب کرتا ہے، دوسرا انہی چیزوں سے اخلاقی سبق لیتا ہے اور زندگی سے ماوراء حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top