Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے
[اَللّٰہُ : اللہ ] [لَآ اِلٰــہَ : کسی قسم کا کوئی الٰہ نہیں ہے ] [اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ہُوَ : وہ ہے ] [اَلْحَیُّ : جو (حقیقتاً ) زندہ ہے ] [الْقَیُّوْمُ : جو (حقیقی) نگران و کفیل ہے ] [لاَ تَاْخُذُہٗ : نہیں پکڑتی اس کو ] [سِنَـۃٌ : کوئی اونگھ ] [وَّلاَ نَوْمٌ : اور نہ کوئی نیند ] [لَہٗ : اس کی ہی (ملکیت) ہے ] [مَا : وہ جو ہے ] [فِی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ] [وَمَا : اور وہ جو ہے ] [فِی الْاَرْضِ : زمین میں ] [مَنْ ذَا الَّذِیْ : کون ہے وہ جو ] [یَشْفَعُ : شفاعت کرے ] [عِنْدَہٗ : اس کے پاس ] [اِلاَّ : مگر ] [بِاِذْنِہٖ : اس کی اجازت سے ] [یَعْلَمُ : وہ جانتا ہے ] [مَا : اس کو جو ] [بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ : ان کے آگے ہے ] [وَمَا : اور اس کو جو ] [خَلْفَہُمْ : ان کے پیچھے ہے ] [وَلاَ یُحِیْطُوْنَ : اور وہ احاطہ نہیں کرتے ] [بِشَیْئٍ : کسی چیز کا ] [مِّنْ عِلْمِہٖٓ : اس کے علم میں سے ] [اِلاَّ : مگر ] [بِمَا : اس کا جو ] [شَآئَ : وہ چاہے ] [وَسِعَ : کشادہ ہوا ] [کُرْسِیُّہُ : اس کا تخت حکومت ] [السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں ] [وَالْاَرْضَ : اور زمین میں ] [وَلاَ یَئُوْدُہٗ : اور نہیں تھکاتا اس کو ] [حِفْظُہُمَا : ان دونوں کی حفاظت کرنا ] [وَہُوَ : اور وہ ] [الْعَلِیُّ : بالاتر ہے ] [الْعَظِیْمُ : عظیم ہے ] و س ن وَسِنَ (س) سِنَۃً : اُونگھ آنا۔ سِنَۃٌ (اسم ذات) : اُونگھ ‘ غفلت ‘ آیت زیر مطالعہ۔ ن و م نَامَ (ف) نَوْمًا : نیند کرنا ‘ سونا۔ نَوْمًا (اسم ذات) : نیند ‘ آیت زیر مطالعہ۔ نَائِمٌ (اسم الفاعل) : نیند کرنے والا ‘ سونے والا۔ { فَطَافَ عَلَیْھَا طَـآئِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ وَھُمْ نَــآئِمُوْنَ ۔ } (القلم) ” تو چکر لگایا ایک آفت نے آپ ﷺ کے رب کی طرف سے اس حال میں کہ وہ لوگ نیند کرنے والے تھے۔ “ مَنَامٌ (مَفْعَلٌ کے وزن پر اسم الظرف) : نیند کرنے یا سونے کی جگہ یا وقت۔ { اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ } (الصّٰفّٰت :102) ” بیشک میں دیکھتا ہوں سونے کے وقت میں کہ میں تجھ کو ذبح کرتا ہوں۔ “ ک ر س (x) x : ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔ اَکْرَسَ (افعال) اِکْرَاسًا : کسی چیز کو تہہ در تہہ جمانا ‘ عمارت کی بنیاد کو ٹھونک ٹھونک کر پختہ کرنا۔ کُرْسِیٌّ : بیٹھنے یا جمنے کی جگہ ‘ کرسی ‘ تختِ حکومت ۔ آیت زیر مطالعہ۔ ء و د آد َ (ن) اَوْدًا : گرانبار کرنا ‘ تھکانا۔ آیت زیر مطالعہ۔ ع ل و عَلَا (ن) عُلُوًّا : (1) بلند ہونا ‘ (2) کسی چیز پر چڑھنا ‘ چڑھائی کرنا ‘ غالب ہونا ‘ (3) سرکشی کرنا ‘ بغاوت کرنا۔ { اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ } (النمل) ” کہ تم لوگ بلند مت ہو مجھ سے اور تم لوگ آئو میرے پاس فرمانبردار ہوتے ہوئے۔ “{ وَلَعَلَا بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍط } (المؤمنون :91) ” اور ضرور چڑھائی کرتے ان کے بعض ‘ بعض پر۔ “ { اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ } (القصص :4) ” بیشک فرعون نے سرکشی کی زمین میں۔ “ عُلُوٌّ (اسم ذات بھی ہے) : بلندی ‘ بڑائی۔ { تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًاط } (القصص :83) ” یہ آخری گھر ‘ ہم نے بنایا اسے ان لوگوں کے لیے جو نہیں چاہتے بڑائی زمین میں اور نہ فساد۔ “ اَعْلٰی مؤنث عُلْیَا (اَفْعَلُ اور فُعْلٰی کے وزن پر اسم التفضیل) : زیادہ بلند ‘ سب سے بلند ‘ غالب۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو مطلب ہوتا ہے انتہائی بلند ‘ مطلق بلند۔ { لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی ۔ } (طٰہٰ ) ” تو مت ڈر ‘ بیشک تو غالب ہے۔ “ { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ۔ } (الاعلـٰی) ” تو تسبیح کر اپنے بلند رب کے نام کی۔ “ { وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَاط } (التوبۃ :40) ” اور اللہ کا فرمان ہی بلند ہے۔ “ عَالٍ (اسم الفاعل) : صفت کے طور پر بھی آتا ہے : بلند ہونے والا یعنی بلند۔ { فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ۔ } (الحاقۃ) ” ایک بلند باغ میں۔ “{ عٰلِیَھُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ } (الدھر :21) ” چڑھنے والا ہے ان پر ایک باریک ریشم کا کپڑا۔ “{ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِج } (یونس :83) ” اور بیشک فرعون سرکشی کرنے والا ہے زمین میں۔ “ عَلِیٌّ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : ہمیشہ اور ہر حال میں بلند ‘ بالاتر۔ آیت زیر مطالعہ۔ عِلِّیٌّ (اسم ذات) : بلندی۔ { اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ ۔ } (المطففین) ” یقینا نیکی کرنے والوں کی کتاب بلندیوں میں ہے۔ “ تَعَالٰی (تفاعل) تَعَالٍ : دوسروں سے بلند ہونا۔ { فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ } (الاعراف) ” توبلندہوا اللہ اس سے جو یہ لوگ شرک کرتے ہیں۔ “ تَعَالَ ج تَعَالَوْا (فعل امر) : تو بلندہو ‘ تو اٹھ ‘ پھر زیادہ تر ” تو آ “ کے معنی میں آتا ہے۔ { تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ } (آل عمران :64) ” تم لوگ آئو ایک ایسے کلمے کی طرف جو برابر ہے ہمارے اور تمہارے مابین۔ “ مُتَعَالٍ (اسم الفاعل) : صفت کے طور پر بھی آتا ہے : دوسروں سے بلند ہونے والا یعنی دوسروں سے بلند۔ { عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْـکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ ۔ } (الرعد) ” شھادہ (ظاہر) اور غیب کا جاننے والا جو ہمیشہ بڑا ہے ‘ سب سے بلند ہے۔ “ اِسْتَعْلٰی (استفعال) اِسْتِعْلَائً : بلندی یا غلبے کی کوشش کرنا یعنی بلند ہونا ‘ غالب ہونا۔ { وَقَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی ۔ } (طٰــہٰ ) ” اور اس نے مراد پا لی ہے آج جو غالب ہوا۔ “ ترکیب : ” اَللّٰہُ “ مبتدأ اور اس کے آگے ” لَا اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ “ پورا جملہ اس کی خبر ہے ‘ جبکہ اس جملہ میں ” لَا اِلٰــہَ “ مبتدأ ہے ‘ اس کی خبر ” بِحَقٍّ مَوْجُوْدٌ“ محذوف ہے اور ” اِلاَّ ھُوَ “ متعلق خبر ہے۔ ” اَلْحَیُّ “ اور ” اَلْقَیُّوْمُ “ مبتدأ لفظ ” اَللّٰہُ “ کا بدل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہیں اور ان پر لام جنس ہے۔ ” لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ“ پورا جملہ ” اَللّٰہُ “ کی صفت ہے۔ اس جملہ میں ” لَا تَاْخُذُہٗ “ فعل ہے ” ہٗ “ اس کی ضمیر مفعولی ہے ‘ جبکہ ” سِنَۃٌ“ اور ” نَوْمٌ“ اس کے فاعل ہیں۔ ” مَا “ مبتدأ ہے ‘ اس کی خبر ” مَوْجُوْدٌ“ محذوف ہے اور ” فِی السَّمٰوٰتِ “ اور ” فِی الْاَرْضِ “ قائم مقام خبر ہیں۔ پھر یہ دونوں جملے مبتدأ مؤخر ہیں ‘ ان کی خبر ” ثَابِتٌ“ محذوف ہے ‘ جبکہ ” لَـہٗ “ قائم مقام خبر مقدم ہے ‘ اور اس پر لام تملیک لگا ہوا ہے۔ ” یَعْلَمُ “ کا فاعل اس میں ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے جو ” اَللّٰہُ “ کے لیے ہے۔ ” مَا “ اس کا مفعول ہے ‘ جبکہ ” بَیْنَ “ اور ” خَلْفَ “ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ” کُرْسِیُّہٗ “ مرکب اضافی ہے اور ” وَسِعَ “ کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے ‘ جبکہ ” اَلسَّمٰوٰتِ “ اور ” اَلْاَرْضَ “ دونوں اس کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ” یَـئُوْدُ “ کا فاعل ” حِفْظُھُمَا “ ہے۔ ” اَلسَّمٰوٰتِ “ ایک جنس ہے اور ” اَلْاَرْضَ “ دوسری جنس ہے ‘ اس لیے تثنیہ کی ضمیر ” ھُمَا “ آئی ہے۔ نوٹ (1) : تفسیر ابن کثیر میں متعدد احادیث دی ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت ہے۔ ہر نماز کے بعد اور رات کو سوتے وقت اس کو پڑھ لینے سے انسان شیاطین جن و انس سے محفوظ رہتا ہے۔
Top