Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ : نہیں الْبِرَّ : نیکی اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ قِبَلَ : طرف الْمَشْرِقِ : مشرق وَالْمَغْرِبِ : اور مغرب وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور دن الْاٰخِرِ : آخرت وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب وَالنَّبِيّٖنَ : اور نبی (جمع) وَاٰتَى : اور دے الْمَالَ : مال عَلٰي حُبِّهٖ : اس کی محبت پر ذَوِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکین (جمع) وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَالسَّآئِلِيْنَ : اور سوال کرنے والے وَفِي الرِّقَابِ : اور گردنوں میں وَاَقَامَ : اور قائم کرے الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَى : اور ادا کرے الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالْمُوْفُوْنَ : اور پورا کرنے والے بِعَهْدِهِمْ : اپنے وعدے اِذَا : جب عٰھَدُوْا : وہ وعدہ کریں وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے فِي : میں الْبَاْسَآءِ : سختی وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَحِيْنَ : اور وقت الْبَاْسِ : جنگ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ صَدَقُوْا : انہوں نے سچ کہا وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں
[ لَـیْسَ الْبِرَّ : کل نیکی یہی نہیں ہے ] [ اَنْ تُوَلُّوْا : کہ تم لوگ پھیر لو ] [ وُجُوْھَکُمْ : اپنے چہروں کو ] [ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ : مشرق اور مغرب کی طرف ] [ وَلٰــکِنَّ : اور لیکن (بلکہ) ] [ الْبِرَّ : نیکی ] [ مَنْ : اس کی ہے جو ] [ اٰمَنَ : ایمان لایا ] [ بِاللّٰہِ : اللہ پر ] [ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخری دن پر ] [ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ : اور فرشتوں پر ] [ وَالْکِتٰبِ : اور کتاب پر ] [ وَالنَّبِیّٖنَ : اور نبیوں پر ] [ وَاٰتَی : اور (جس نے) دیا ] [ الْمَالَ : مال ] [ عَلٰی حُبِّہٖ : اس کی محبت کے باوجود ] [ ذَوِی الْقُرْبٰی : قرابت داروں کو ] [ وَالْیَتٰمٰی : اور یتیموں کو ] [ وَالْمَسٰکِیْنَ : اور مسکینوں کو ] [ وَابْنَ السَّبِیْلِ : اور راستے کے بیٹے (مسافر) کو ] [ وَالسَّائِلِیْنَ : اور مانگنے والوں کو ] [ وَفِی الرِّقَابِ : اور گردنوں (غلاموں) کے آزاد کرانے میں ] [ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ : اور (جس نے) قائم کیا نماز کو ] [ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ : اور (جس نے) پہنچایا زکوٰۃ کو ] [ وَالْمُوْفُوْنَ : اور (جو) پورا کرنے والے ہیں ] [ بِعَھْدِھِمْ : اپنے عہد کو ] [ اِذَا : جب بھی ] [ عٰھَدُوْا : وہ لوگ باہمی معاہدہ کریں ] [ وَالصّٰبِرِیْنَ : اور ثابت قدم رہنے والے ] [ فِی الْبَاْسَآئِ : (فقرو فاقہ کی) سختیوں میں ] [ وَالضَّرَّآئِ : اور تکالیف میں ] [ وَحِیْنَ الْبَاْسِ : اور گھمسان کی جنگ کے وقت ] [ اُولٰٓئِکَ : یہ ] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ ہیں جنہوں نے ] [ صَدَقُوْا : سچ کر دکھایا (نیکی کو) ] [ وَاُولٰٓئِکَ : اور یہ لوگ ] [ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ : ہی متقی ہیں ] ی ت م یَتِمَ (س) یَتْمًا : چھوٹے بچے کا والدین کی شفقت سے محروم ہونا۔ یَتِیْمٌ ج یتامٰی (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفتِ مشبہ کا صیغہ): انسانوں میں ایسا بچہ جس کا باپ مرگیا ہو۔ جانوروں میں ایسا بچہ جس کی ماں مرگئی ہو۔ آیت زیر مطالعہ۔ س ب ل سَبَلَ (ن) سَبْلًا : لٹکنا ‘ بہنا ‘ رواں دواں ہونا۔ سَبِیْلٌ (ج) سُبُلٌ : فَعِیْلٌ کا وزن ہے۔ متعدد معانی میں آتا ہے : (1) آسان راستہ ‘ کھلی سڑک۔ { وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ } (الحجر :76) ” اور یقینا وہ (یعنی بستی) ایک مستقل سڑک پر واقع ہے۔ “ { اَلَّذِیْ جَعَلَ لَــکُمُ الْاَرْضَ مِھٰدًا وَّجَعَلَ لَــکُمْ فِیْھَا سُبُلًا } (الزخرف :10) ” جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو فرش اور اس نے بنائے تمہارے لیے اس میں راستے۔ “ (2) راہ ‘ طریقہ (کسی نظریہ یا ضابطہ کے مطابق عمل کرنے کا طریقہ) { وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی } (النسائ :115) ” اور جس نے پیروی کی مؤمنوں کے طریقے کے علاوہ ‘ تو ہم پھیر دیں گے اس کو ادھر جدھر وہ پھرا۔ “ { وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ } (الانعام :55) ” اور تاکہ واضح ہوجائے مجرموں کا طریقہ۔ “ { وَمَالَنَا اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَقَدْ ھَدٰٹنَا سُبُلَنَا } (ابراھیم :12) ” اور ہمیں کیا ہے کہ ہم تو کّل نہ کریں اللہ اس پر اس حال میں کہ اس نے ہمیں راہنمائی دی ہے ہمارے طریقوں کی۔ “ (3) راہ ‘ ذریعہ (کسی تک پہنچنے یا خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ) ۔ { وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } (البقرۃ :195) ” اور تم لوگ خرچ کرو اللہ کی راہ میں۔ “{ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا } (العنکبوت :69) ” اور جن لوگوں نے جدوجہد کی ہمارے لیے ان کی ہم لازماً راہنمائی کریں گے اپنی راہوں کی۔ “ (4) الزام (کسی پر گرفت حاصل کرنے کا ذریعہ) { مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ } (التوبۃ :91) ” بلا کم وکاست کام کرنے والوں پر کوئی الزام نہیں ہے۔ “ ر ق ب رَقَبَ (ن) رَقُوْبًا : نگہبانی کرنا ‘ انتظار کرنا ‘ کسی بات کا لحاظ کرنا۔ { لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلاَّ وَّلَا ذِمَّۃً } (التوبۃ :10) ” وہ لوگ لحاظ نہیں کرتے کسی مومن سے قرابت داری کا اور نہ ذمہ داری کا۔ “ رَقِیْبٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت مشبہ ): نگہبانی کرنے والا ‘ نگہبان۔ { مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ} (ق :18) ” مُنہ سے نہیں نکلتی کوئی بات مگر یہ کہ اس کے پاس ہے ایک چوکس نگہبان۔ “ رَقَبَۃٌ (ج) رِقَابٌ (اسم ذات): گردن (کیونکہ گردن کو مختلف سمت میں گردش دے کر انسان نگہبانی کرتا ہے) ۔ { فَکَفَّارَتُہٗ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَــبَۃٍ } (المائدۃ :89) ” تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اس کے اوسط سے جو تم لوگ کھلاتے ہو اپنے گھر والوں کو یا ان کو (دس مسکینوں کو) کپڑا پہنانا ہے یا کسی گردن کا آزاد کرنا ہے۔ “ تَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍکسی غلام کو آزاد کرانے کے لیے عربی محاورہ ہے۔ { فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ } (محمد :4) ” پس جب تم لوگ مقابل ہو ان کے جنہوں نے کفر کیا تو گردنوں کا مارنا ہے۔ “ تَرَقَّبَ (تفعّل) تَرَقُّبًا : کسی چیز سے بچنے کے لیے خود اپنی نگہبانی کرنا ‘ چوکنا ہونا۔ { فَخَرَجَ مِنْھَا خَائِفًا یَّــتَرَقَّبُ } (القصص :21) ” تو وہ نکلا وہاں سے ڈرتے ہوئے ‘ اپنی نگہبانی کرتے ۔ “ اِرْتَقَبَ (افتعال) اِرْتِقَابًا : اہتمام سے انتظار کرنا۔ اِرْتَقِبْ ( فعل امر) : تو انتظار کر۔{ فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ } (الدُّخان :10) ” پس تو انتظار کر اس دن کا جب آسمان لائے گا ایک واضح دھواں۔ “ مُرْتَقِبٌ (اسم الفاعل) : انتظار کرنے والا ۔ { فَارْتَقِبْ اِنَّھُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ } (الدُّخان :59) ” پس تو انتظار کر ‘ بیشک وہ لوگ بھی انتظار کرنے والے ہیں۔ “ ترکیب : استاد محترم پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم کی یہ رائے ہے ‘ اور میرا ذہن اسی کو ترجیح دیتا ہے ‘ کہ ” اَنْ تُوَلُّوْا “ سے ” وَالْمَغْرِبِ “ تک پورا جملہ ” لَیْسَ “ کا اسم ہے ‘ جبکہ ” الْبِرَّ “ اس کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اسے تاکید کے لیے مقدم کیا گیا ہے اور اس پر لام جنس ہے ۔ ” اَنْ “ کی وجہ سے ” تُوَلُّوْا “ مضارع منصوب ہے۔ اس کا فاعل اس میں شامل ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے۔ ” وُجُوْھَکُمْ “ مفعول ہے اور ” قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ “ مفعول فیہ ہے۔ ” لٰــکِنَّ “ کا اسم ہونے کی وجہ سے ” الْبِرَّ “ منصوب ہے اور ” مَنْ “ اس کی خبر ہے۔ یہ ” مَنْ “ موصولہ ہے اور ” اٰمَنَ بِاللّٰہِ “ سے ” اِذَا عَاھَدُوْا “ تک کے جملے اس کا صلہ ہیں۔” اَلْیَوْمَ “ سے ” النَّبِیّٖنَ “ تک تمام الفاظ سے پہلے حرف جر ” بِ “ محذوف ہے اس لیے یہ سب مجرور ہیں۔ ” اٰتَی “ سے پہلے ” مَنْ “ محذوف ہے۔ ” الْمَالَ “ اس کا مفعول اوّل ہے۔ ” عَلٰی حُبِّہٖ “ متعلق فعل ہے اور اس میں ” ہٗ “ کی ضمیر ” اَلْمَالَ “ کے لیے ہے۔ ” ذَوِی الْقُرْبٰی “ سے ” فِی الرِّقَابِ “ تک ” اٰتَی “ کے مفعول ثانی ہیں۔ اسی طرح ” اَقَامَ الصَّلٰوۃَ “۔ ” اٰتَی الزَّکٰوۃَ “ اور ” اَلْمُوْفُوْنَ “ سے پہلے بھی ” مَنْ “ محذوف ہے۔ اردو میں ہم کہتے ہیں ” حامد کو شاباش ہے “۔ یہ دراصل ایک جملے کا تخفیف شدہ محاورہ ہے۔ پورا جملہ تھا ” میں حامد کو شاباش دیتا ہوں “۔ اس جملے میں حامد مفعول ہے۔ عربی میں کسی کی تعریف کرنے کے اس انداز کا محاورہ یہ ہے کہ صرف مفعول کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی ” حامد کو شاباش ہے “ کا عربی محاورہ میں ترجمہ ہوگا ” وَحَامِدًا “۔ اس انداز کو اضمارِ اَعْنِیکہتے ہیں۔ اب نوٹ کرلیں کہ اس آیت میں ” وَالصّٰبِرِیْنَ “ اِضمارِ اَعْنِیکی وجہ سے منصوب ہے۔ نوٹ (1) : عربی میں کسی قریبی چیز کی بلندی اور عظمت کے اظہار کے لیے اشارہ قریب کے بجائے اشارئہ بعید استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں ” اُولٰئِکَ “ کا ترجمہ ” وہ “ کے بجائے ” یہ “ کیا گیا ہے۔ نوٹ (2) : کتاب ” آسان عربی گرامر “ حصہ اوّل کے پیراگراف 7:19 میں آپ کو بتایا گیا تھا کہ لفظ ” ذُوْ “ (والا) جب مضاف بن کر آتا ہے تو رفع ‘ نصب اور جر میں یہ ” ذُوْ ۔ ذَا۔ ذِی “ استعمال ہوتا ہے۔ اب نوٹ کرلیں کہ اس کی جمع رفع میں ” ذَوُوْ “ اور نصب و جر دونوں میں ” ذَوِیْ “ آتی ہے۔ اس آیت میں مفعول ہونے کی وجہ سے ” ذَوِیْ “ منصوب ہے۔ نوٹ (3) : یہ آیت تحویل قبلہ کے حکم کا تتمّہ ہے۔ اس حکم سے ذہنوں میں جو الجھن پیدا ہوئی تھی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان نیکی کے کسی جزو کو ہی کُل نیکی سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس آیت میں اسی غلطی کی نشاندہی کرنے کے بعد کل نیکی کی تعریف (Definition) بیان کردی گئی ہے۔ ہمارے لیے اس کی افادیت یہ ہے کہ کسی کو کچھ لوگ جب نیک اور پارسا قرار دیں تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کی اس بات پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کر بیٹھے ‘ بلکہ اس آیت میں دیے گئے نیکی کے معیار پر ہر پہلو سے خود کو پرکھ کر اپنے سود و زیاں کا حساب خود کرلے۔
Top