Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 175
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ١ۚ فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : مول لی الضَّلٰلَةَ : گمراہی بِالْهُدٰى : ہدایت کے بدلے وَالْعَذَابَ : اور عذاب بِالْمَغْفِرَةِ : مغفرت کے بدلے فَمَآ : سو کس قدر اَصْبَرَھُمْ : بہت صبر کرنے والے وہ عَلَي : پر النَّارِ : آگ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں
[ اُولٰٓئِکَ : وہی لوگ ہیں ] [ الَّذِیْنَ : جنہوں نے ] [ اشْتَرَوُا : خریدا ] [ الضَّلٰلَۃَ : گمراہی کو ] [ بِالْھُدٰی : ہدایت کے بدلے ] [ وَالْعَذَابَ : اور عذاب کو ] [ بِالْمَغْفِرَۃِ : مغفرت کے بدلے ] [ فَمَآ : تو کس چیز نے ] [ اَصْبَرَھُمْ : صبر دیا ان کو ] [ عَلَی النَّارِ : آگ پر ] ترکیب :” فَمَا “ میں ” مَا “ اسم تعجب ہے اور مبتداء ہے۔” اَصْبَرَ “ فعل ‘ اس کا فاعل اس میں شامل ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے جو ” مَا “ کے لیے ہے اور ” ھُمْ “ اس کی ضمیر مفعولی ہے۔ ” اَصْبَرَھُمْ “ جملہ فعلیہ مبتداء ” مَا “ کی خبر ہے اور ” عَلَی النَّارِ “ متعلق خبر ہے۔ نوٹ (1) : اوپر ترکیب میں بتایا گیا ہے کہ ” مَا “ اسم تعجب ہے۔ اس سلسلہ میں یہ سمجھ لیں کہ مَا اَفْعَلَہٗ اوراَفْعِلْ بِہٖ دو وزن ہیں جو اظہارِ تعجب کے لیے آتے ہیں اور ان کو ” تعجب کے دو صیغے “ (صِیْغَتَا التَّعَجُّبِ ) کہتے ہیں۔ جیسے ” مَا اَحْسَنَہٗ “ (کس چیز نے حسین بنایا اس کو) یا ” مَا اَحْسَنَ رَشِیْدًا “ (کس چیز نے حسین بنایا رشید کو) ۔ اس کی ترکیب اوپر بتادی گئی ہے اور لفظی ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے ‘ لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ رشید کتنا حسین ہے۔ اس طرح ” مَا اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ “ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ کتنے ثابت قدم ہیں آگ پر۔ اسی طرح ” اَحْسِنْ بِہٖ “ یا ” اَحْسِنْ بِرَشِیْدٍ “ میں ” اَحْسِنْ “ فعل امر ہے۔ ” بِ “ زائدہ ہے اور ” ہُ “ ضمیر مفعولی ہے۔ ” بِرَشِیْدٍ “ میں بھی ” بِ “ زائدہ ہے اور ” رَشِیْدٍ “ مفعول ہے۔ اس طرح اس کا لفظی ترجمہ ہوگا ” تو خوبصورتی دے اس کو “ یعنی تو خوبصورت سمجھ اس کو۔ اور ” تو خوبصورتی دے رشید کو “ یا ” تو خوبصورت سمجھ رشید کو “۔ لیکن مفہوم یہی ہے کہ رشید کتنا خوبصورت ہے۔
Top