Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں
[ اُولٰۗىِٕكَ : یہ لوگ ہیں ] [ الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے ] [ اشْتَرَوُا : خریدا ] [ الضَّلٰلَةَ : گمراہی کو ] [ بِالْهُدٰى ۠ : ہدایت کے بدلے میں ] [ فَمَا رَبِحَتْ : تو نفع بخش نہ ہوئی ] [ تِّجَارَتُھُمْ : ان کی تجارت ] [ وَمَا كَانُوْا : اور وہ لوگ نہیں تھے ] [ مُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے ] ش ر ی (ض) شراء ] سوداگری کرنا، خریدو فروخت کرنا، وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ ۭ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ (اور کتنا برا ہے جو ان لوگوں نے سودا کیا اپنے آپ کا، کاش وہ لوگ جانتے ہوتے) (افتعال) اشتراء : خریدنا، کسی چیز کے بدلے کوئی چیز حاصل کرنا وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ (اور کہا اس نے جس نے خریدا اس کو مصر سے) ر ب ح : (س) ربحا : نفع بخش ہونا، آیت زیر مطالعہ۔ ترکیب : اُولٰۗىِٕكَ مبتدا ہے ، الَّذِيْنَ موصول اور اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى جملہ فعلیہ اس کا صلہ ہے ۔ موصول اور صلہ مل کر پورا جملہ اُولٰۗىِٕكَ کی خبر ہے ۔ رَبِحَتْ فعل (واحد مونث غائب کا صیغہ) اور تِّجَارَتُھُمْ اس کا فاعل ہے۔ كَانُوْا میں ھُم کی ضمیر مَا اور کَانَ کا اسم یعنی مبتداء ہے اور مُهْتَدِيْنَ ان دونوں کی خبر ہے اس لیے حالت نصب میں ہے ۔ اشْتَرَوُا دراصل اشْتَرَوْا ہے۔ آگے ملانے کے لیے واؤ پر ضمہ آئی ہے۔ نوٹ 1: عربی میں مفعول کے ساتھ صلہ کے استعمال کے متعلق ایک ابتدائی بات سمجھ لیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ متعلق خبر اور متعلق فعل زیادہ تر مرکب جاری بن کر آتے ہیں۔ جیسے الرجل جالس فی المسجد۔ اس میں مرکب جاری فی المسجد متعلق خبر ہے۔ ضربت زیدا بالسوط اس میں مرکب جاری بالسوط متعلق فعل ہے ۔ اب نوٹ کریں کہ یہی حروف جاری کبھی مفعول کے ساتھ آتے ہیں تو انہیں صلہ کہتے ہیں، جو مفعول صلہ کے بغیر آتے ہیں انہیں مفعول بنفسہ کہتے ہیں۔ مفعول پر صلہ آنے کی وجہ سے معنی میں کچھ فرق پڑتا ہے۔ اس بات کو اب چند مثالوں سے سمجھ لیں۔ سئلت زیدا اس میں زیدا مفعول ہے اور بنفسہ آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے میں نے زید سے پوچھا ۔ سئلت عن زید۔ اب زید کے ساتھ عن کا صلہ آیا ہے اور اب مطلب ہوگیا کہ میں نے زید کے ابرے میں پوچھا۔ قرآن مجید میں ہے واذا سالک عبادی عنی ۔ اس میں جس سے پوچھا جارہا ہے اس کے لیے ضمیر مفعولی " ک " بنفسہ آئی ہے ۔ جس کے بارے میں پوچھا جارہا ہے اس کے لیے ضمیر مفعولی " نی " عن کے سلہ کے ساتھ آئی ہے جبکہ عبادی فاعل ہے ۔ غفرت للولد کذبہ۔ اس میں جس کو معافی دی جارہی ہے وہ الولد ہے اس کے ساتھ لام کا صلہ آیا ہے اور جو غلطی معاف کی جارہی ہے وہ کزبہ ہے ، اور یہ بنفسہ آیا ہے ۔ اسکا مطلب ہے میں نے لڑکے کے لیے اس کا جھوٹ معاف کیا۔ قرآن مجید میں ہے ان اللہ یغفر الذنوب جمعیا۔ اس میں جو غلطی معاف کی جارہی ہے وہ الذنوب ہے جو بنفسہ آئی ہے ۔ جمیعا (کل کے کل) حرف تاکید ہونے کی وجہ سے نصب میں ہے ۔ دوسری جگہ ہے یگفر لکم ذنوبکم۔ اس میں جس کو معافی دی جارہی ہے اس کے لیے ضمیر مفعولی " کم " کے ساتھ لام کا صلہ آیا ہے۔ اور جو غلطی معاف کی جارہی ہے وہ ذنوبکم ہے جو بنفسہ ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ معاف کردے گا تم لوگوں کے لیے تمہارے گناہ۔ ایک اور جگہ یغفر لیکم من ذنوبکم۔ اب مطلب ہوگیا کہ وہ معاف کردے گا تمہارے لیے تمہارے گناہوں میں سے کچھ۔ نوٹ 2: کوئی مفعول کب بنفسہ آتا ہے اور کب کس صلہ کے ساتھ آتا ہے ، اس بات کا علم ہمیں ڈکشنری سے ہوتا ہے ۔ فعل اشتری، یشتری (افتعال) کے متعلق نوٹ کرلیں کہ خریدی جانے والی چیز کا ذکر اس میں بنفسہ آتا ہے اور قیمت کے طور پر جو چیز دی جاتی ہے اس پر ب کا صلہ آتا ہے، آیت زیر مطالعہ میں الضللۃ بنفسہ آیا ہے، اس لیے یہ وہ چیز ہے جو خریدی گئی یعنی حاصل کی گئی۔ جبکہ الھدی پر ب کا صلہ آیا ہے، اس لیے یہ وہ قیمت ہے جو ادا کی گئی۔ نوٹ 3 : سلسلہ کلام میں ایسے افراد کا ذکر ہے جنہیں ایمان کی بھی کچھ رمق حاصل ہوتی ہے لیکن وہ ضعف ایمان کے مریض ہوتے ہیں اس پس منظر میں آیت زیر مطالعہ کے یہ الفاظ اہم ہیں کہ انہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کی۔ اس سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ خواہشات کے غلبہ کی وجہ سے اگر مرض کا علاج نہ ہوسکے تو پھر انسان ہدایت کے راستے ایک ایک کر کے چھوڑتا جاتا ہے اور گمراہی میں آگے بڑھتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ پھر وہ Point of no Return پر پہنچ جاتا ہے۔ نوٹ 4 : کسی دل میں خواہشات اور امنگوں کا ہونا بذات خود کوئی بری بات نہیں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ نظام کا حصہ ہے اور ہر انسان کی جبلت ہے ۔ کم یا زیادہ، ہر دل میں امنگیں ہوتی ہیں، خواہ وہ کسی متقی کا دل ہو یا کسی فاسق و فاجر کا ہو، خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنی خواہشات کا تابعدار ہوجاتا ہے ، اس کا ٹیسٹ یہ ہے کہ عقل کے کسی فیصلہ پر اگر دل بھی گواہی دے دے ، لیکن اپنی کسی خواہش یا مفاد یا خاندان یا برادری کے دباؤ کی وجہ سے انسان اس فیصلہ پر عمل نہ کرسکے، تو گویا اس نے اپنی فطرت کی پکار سننے کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی شروع کردی ہے اور یہی گمراہی کی جڑ ہے۔
Top