Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
[ یٰٓـــاَیـُّھَا النَّاسُ : اے لوگو !] [ کُلُوْا : تم کھائو ] [ مِمَّا : اس میں سے جو ] [ فِی الْاَرْضِ : زمین میں ہے ] [ حَلٰلًا طَیِّبًا : حلال ‘ پاکیزہ (رزق) کو ] [ وَّلَا تَتَّبِعُوْا : اور تم لوگ پیروی مت کرو ] [ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ : شیطان کے نقش قدم کی ] [ اِنَّـہٗ : یقینا وہ ] [ لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ: ایک کھلا دشمن ہے ] ح ل ل حَلَّ (ن ‘ ض) حِلاًّ اور حَلَالًا : رسی کھولنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے : (1) گرہ کھولنا۔ (2) کسی جگہ اترنا (منزل پر سواری سے اتر کر سامان کی رسیاں کھولتے ہیں) ۔ (3) احرام کھولنا (احرام کی پابندیاں یعنی بندشیں کھل جاتی ہیں) ۔ (4) جائز ہونا ‘ حلال ہونا (استعمال کرنے کی بندش کھل جاتی ہے) ۔ { اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ } (طٰہٰ :86) ” یا ارادہ کیا تم لوگوں نے کہ اترے تم لوگوں پر کوئی غضب تمہارے رب کی جانب سے۔ “{ وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط } (المائدۃ :2) ” اور جب تم لوگ احرام کھولو تو شکار کرلو۔ “{ وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْ اَرْحَامِھِنَّ } (البقرۃ :228) ” اور جائز نہیں ہوتا ان خواتین کے لیے کہ وہ چھپائیں اس کو جو پیدا کیا اللہ نے ان کے رحموں میں۔ “ اُحْلُلْ (فعل امر) : تو کھول ۔{ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ ۔ } (طٰہٰ ) ” اور تو کھول گرہ میری زبان سے۔ “ مَحِلٌّ (اسم الظرف) : اُترنے کی جگہ۔ { لَــکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ مَحِلُّھَا اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ۔ } (الحج) ” تم لوگوں کے لیے ہیں اس میں کچھ فائدے ایک مقررہ مدت تک ‘ پھر اس کی منزل ہے قدیم گھر کی طرف۔ “ حَلِیْلٌ : (فَعِیْلٌکے وزن پر): شوہر (بیوی کے لیے ہمیشہ حلال ہوتا ہے) ۔ حَلِیْلَۃٌ ج حَلَائِلُ (: فَعِیْلٌکے مؤنث فَعِیْلَۃٌ کے وزن پر): بیوی (شوہر کے لیے ہمیشہ حلال ہوتی ہے) ۔ { وَحَلَائِلُ اَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ } (النسائ :23) ” اور بیویاں تمہارے ان بیٹوں کی جو تمہاری صلب سے ہیں۔ “ حِلٌّ (صفت بھی ہے) : جائز ‘ حلال۔ { وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّھُمْ ز } (المائدۃ :5) ” اور تم لوگوں کا کھانا حلال ہے ان لوگوں کے لیے۔ “ حَلَالٌ (صفت بھی ہے) : جائز ‘ حلال۔{ ھٰذَا حَلٰـلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ} (النحل :116) ” یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ “ اَحَلَّ (افعال) اِحْلَالًا : کسی چیز کو جائز کرنا ‘ حلال کرنا۔{ لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ ماَ اَحَلَّ اللّٰہُ لَـکُمْ } (المائدۃ :87) ” حرام مت کرو پاکیزہ چیزوں کو جن کو حلال کیا اللہ نے تمہارے لیے۔ “ حَلَّلَ (تفعیل) تَحْلِیْلًا اور تَحِلَّــۃً : کفارہ ادا کرنا (کسی عہد یا قسم کی پابندی کھولنے کے لیے) ۔{ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَــکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ ج } (التحریم :2) ” فرض کیا ہے اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کو۔ “ خ ط و خَطَا (ن) خَطْوًا : چلنے کے لیے قدم اٹھانا۔ خُطْوَۃٌ ج خُطُوٰتٌ : دو قدموں کے درمیان کا فاصلہ ‘ نقش قدم۔ (آیت زیر مطالعہ) ترکیب :” کُلُوْا “ فعل امر ہے۔ اس کا فاعل ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے جو ” النَّاسُ “ کے لیے ہے۔ اس کا مفعول محذوف ہے جو ” رِزْقًا “ ہوسکتا ہے۔” مِمَّا فِی الْاَرْضِ “ متعلق فعل ہے۔ ” حَلَالًا “ محذوف مفعول کی صفت ہے اور ” طَیِّبًا “ اس کی صفت ثانی ہے۔” لاَ تَتَّبِعُوْا “ فعل نہی ہے۔ اس کا فاعل ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے جو ” النَّاسُ “ کے لیے ہے۔ ” خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ “ مفعول ہے اس لیے اس کا مضاف ” خُطُوٰتِ “ حالتِ نصب میں آیا ہے۔
Top